موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ‘‘۱؎ ’’تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ ’’ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہر باں ہوگا عرش بریں پر‘‘ اس لیے دعا کے اسلوب میں اس کو بیان کیا گیا کہ تم دعا میں اپنے ساتھ سب کو شامل کرو: ﴿اہدنا﴾’’ہم سب کو ہدایت دے دیجیے۔‘‘دوسرا نکتہ: دوسری بات یہ ہے کہ جب درخواست اور مدد سب کی طرف سے ہو تو اس میں قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے،کیونکہ ہر آدمی اس قابل نہیں ہوتا ہے کہ اس کی درخواست قبول کی جائے، لیکن جب سب مانگتے ہیں تو کچھ اللہ پاک کے مقرب اور مقبول بندے بھی ہوتےہیں جن کے طفیل دعاقبول ہوتی ہے، اگر آدمی اس طرح کہے کہ یااللہ! میرا یہ کام بنادیجیے تو اس کی کیا حیثیت ہےکہ وہ سوال کرے۔ہوسکتا ہے اس کے گناہ کی وجہ سے اللہ پاک اس سے ناراض ہوں، اس وجہ سے دعا اور درخواست سب کی طرف سے ہونا چاہئے،نیک بندوں کے طفیل قبولیتِ دعا کی زیادہ امید ہوتی ہےاس لئے ’’اھدنا‘‘ صیغۂ جمع کے ساتھ لایا گیا ۔تیسرا نکتہ : تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگرایک کو ہدایت مل جائے ،اور سب محروم ہوجائیں تو اس ہدایت یافتہ کو بھی دین پر چلنا مشکل ہوجائے گا، یہ ہمارا مشاہدہ ہے۔ ایک آدمی وہ ہے جسے راستہ تو مل گیا، لیکن ماحول نہیں ہے، سب کے سب بے راہ رو ہیں تو وہاں پر اس کے لئے صحیح راہ پر چلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ جب تک ایک ہی ماحول پیدا نہیں ہوتا ،ایک ------------------------------ ۱؎:سنن ترمذی:البر والصلۃ؍باب ماجاء فی رحمۃ المسلمین۔