موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
پہچان کرانےوالی ہے، اس لیے ہر چیز کو عالَم کہا جاتا ہے۔ جیسے آپ ایک خاص قسم کا جوتا پہنتے ہوں تو وہ جوتا آپ کے لئے پہچان کا باعث ہوتا ہےمثلاً آپ کا ایک دوست ہے جو رات دن آپ کے سا تھ رہتا ہے، وہ آپ کو مسجد میں دیکھنے کے لیے آیا کہ آپ مسجد میں ہیں یا نہیں۔ اُس نے جوتوں کی جگہ آپ کا جوتا رکھا ہوا دیکھا۔ آپ کو مسجد میں دیکھے بغیر جوتوں کی وجہ سے وہ پہلے ہی سے حکم لگادیتا ہے کہ میرا دوست مسجد میں موجود ہے، کیونکہ وہ مخصوص جوتا اُس آدمی کی علامت ہے۔آدمی کے کپڑے اُس کی پہچان کی علامت ہوتے ہیں،اُس کی گاڑی اس کی پہچان کی علامت ہوتی ہے،جب کوئی گاڑی پارک کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں صاحب کی گاڑی کھڑی ہوئی ہے، وہ بھی آچکے ہیں، اُن کی گاڑی سے اُن کا علم ہوگیا۔ اسی طرح پوری کائنات بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی علامت ہے، زمین اللہ کی علامت ہے، چاند و سورج اللہ کی علامت ہے، دریا اور پہاڑ اللہ کی علامت ہے، یہ شجر و حجر اللہ تعالیٰ کی علامت ہے۔ یہ ساری چیزیں اللہ کے علم کا ذریعہ ہے، اب جو چیز جیسی بنی ہوئی ہے اسی اعتبار سے وہ اللہ کی علامت ہے۔ کوئی چیز بڑی بنی ہوئی ہے تو وہ اللہ کی بڑائی کی علامت ہے۔ کوئی چیز بہت ہی خوبصورت بنی ہوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے صفتِ حسن کی علامت ہے۔ کوئی انتہائی مضبوط بنی ہوئی ہے تو اللہ کی قوت کی علامت ہے۔ کسی کے اندر بے شمار خصوصیتیں ہیں تو وہ اللہ کے کمالات کی علامت ہے۔ کہیں پالنے کا نظام ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی علامت ہے ۔عالَموں کی تعداد: یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کل عالم کتنے ہیں؟اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں،احادیثِ صحیحہ اور مرفوعہ میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے،البتہ اس سلسلہ میں کچھ موقوف روایات اور تابعین اور مفسرین کے چند اقوال ہیں۔جن میں سے ایک حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے :