موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’ب‘‘کی دو قسمیں ہیں:ایک یہ کہ ’’ب‘‘ قسم کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اوردوسرے برکت کےمعنیٰ میں استعمال ہوتا ہے،اس لئے اس معنیٰ کو بتانے کے لئے لفظِ اسم کو بڑھا دیا ،کیونکہ جو ’’ب‘‘ قسم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے وہ اللہ پاک ہی کے اسماء پر داخل ہوتا ہے ،اور یہاں اسم اللہ پر ’’ب‘‘ داخل نہیں ہے بلکہ ’’لفظِ اسم‘‘ پر ’’ب‘‘داخل ہے معلوم ہوا کہ ’’ب‘‘یہاں برکت کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قسم کے معنیٰ میں نہیں۔۱؎ ایک اور حکمت یہ بھی ہے کہ چونکہ حق تعالیٰ شانہ کو یہ علم ہے کہ مجھے ہر بندہ نہیں پا سکتا اور اُس کا ذہن اور اُس کی معرفت براہِ راست مجھ تک نہیں پہونچ سکتی ،اس لئے اپنا نام لینے کا حکم دے دیا کہ بندہ میرے نام کے ذریعہ مجھ تک پہونچے،کیونکہ اللہ پاک کے نام اور اس کے ذکر سے بندہ اللہ تک پہونچ سکتا ہے،اسی وجہ سے قرآن مجید میں فرمایا: ﴿وَلِلّٰهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾۲؎ ’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، لہٰذا تم اسے انہی ناموں سے پکارو۔اسمِ اللہ کی تعریف: ’’بسم اللہ‘‘ میں لفظ’’اللہ‘‘موجودہے،یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذاتی ناموں میں سے ہے ۔ صاحب ِ روح المعانی نے اللہ پاک کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَاجِبُ الْوُجُوْدِ مُتَّصِفٌ بِصِفَاتِ الْكَمَالِ مُنَزَّهٌ عَنْ كُلِّ مَا لَا يَلِيْقُ بِشَأْنٍ مِنْ شُؤٗنِهٖ الْجَلِيْلَةِ‘‘۳؎ ’’اللہ ایسی ذات ِ واجب الوجود کا نام ہے جو تمام صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہے اور ہر ایسے نقص اور ایسی چیز سے پاک ہے جو اس کی جلیل القدر شان کے مناسب نہیں ہے‘‘۔ ------------------------------ ۱؎:بیضاوی:۱؍۲۔ ۲؎:الاعراف:۱۸۰۔ ۳؎: روح المعانی:۱۸؍۱۸۷۔