موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿هٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾۱؎ ’’جتنے بتوں کو ہم پوجتے ہیں ہم انہیں خدا نہیں سمجھتے، یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں گے۔‘‘عبادت کا مفہوم سمجھانے کیلئے قرآنی انداز: عبادت کا مفہوم سمجھانے کے لئے قرآن پاک میں شرک کو زیادہ سمجھایا گیا، کیونکہ ایک مقولہ ہے:’’اَلْاَشْیَاءُ تُعْرَفُ بِاَضْدَادِھَا‘‘، چیز اپنی ضد کےذریعہ پہچانی جاتی ہے۔ جب تک اسلام نہیں آیا تھا اور غفلت کے پردے پڑے ہوئے تھےاُس وقت تک عمومی طور پر کچھ علوی اجسام کے بارے میں، کچھ سفلی اجسام کے بارے میں، کچھ جسمانی اجسام کے بارے میں، کچھ روحانی اجسام کے بارے میں مختلف قوموں کا اور مختلف جماعتوں کا ایک ذہن بنا ہوا تھاکہ اس میں نفع و نقصان ہے،لہٰذا اُن کے سامنے اپنی عاجزی اور ذلت کا اظہار کرنا چاہیے۔ چنانچہ آپ ہندوؤں کو، وید کے ماننے والوں کو،مجوسیوں کو، پارسیوں کو، آتش پرستوں کو، عیسائیوں کو، دیکھیں گے کہ وہ کسی نہ کسی کی عبادت میں مبتلا ہیں اور اللہ کے ساتھ کسی نہ کسی کو شریک کرتے ہیں۔ ہندوستان کے ہندوؤں میں بعض ایسے ہیں کہ جب تک سورج کی پوجا نہیں کرلیتے وہ پانی کے قریب نہیں جاتے۔ انہوں نے چاند و سورج اور اس قسم کی مخلوقات کے بارے میں سوچ لیا کہ ان میں نفع و نقصان کی صلاحیت ہے،لہٰذا انہیں پوجنا چاہئے،کچھ ایسے ہیں جو عناصر اربعہ (آگ، پانی، مٹی، ہوا )کو پوجتے ہیں۔ پارسی تو خاص کر آگ کی پوجا کرتے ہیں اور اس کی پوجا یہ ہے کہ اس کے سامنے دم دو کرنا اور اُس کو جلاتے رہنا۔ یعنی یہ ایسا خدا ہے کہ اگر ہم باقی رکھیں تو وہ بھی باقی رہے گا اور اگر باقی نہ رکھیں تو وہ ختم ہوجاتا ہے۔ آگ کو ------------------------------ ۱؎:یونس :۱۸۔