موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
مسعود کے آثار کا مقابلہ نہیں کرسکتا،دوسرے بعض روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن الزبیر کے زمانہ میں کچھ حضرات نے آمین کہنے کو بدعت سمجھ کر بالکل ترک کردیا تھا، ایسے حضرات کی تردید کے لئے حضرت عبداللہ بن الزبیر نے آمین بالجہر شروع کردیا ہو تو کچھ بعید نہیں، بہرحال حضرت ابنِ زبیر اور وائل بن حجر کے سوا کسی بھی صحابی سے جہراًتامین ثابت نہیں ، نہ قولا ًنہ فعلاً جبکہ اُن دونوں کی روایات بھی محتمل التاویل ہیں، جیسا کہ یہ بحث گزرچکی ہے،کیا یہ بات اس امر کی دلیل قاطع نہیں کہ جہراًتامین افضل نہیں، بلکہ اس کا اخفاء افضل ہے۔حضرت عطاء کا اثر اور اس کا رد شوافع وغیرہ حضرت عطاء کے اثر سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ :انہوں نے دو سو صحابہ سے ملاقات کی، سب آمین بالجہر کرتے تھے۔۱؎ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر معلول ہے، کیونکہ حضرت عطاء کا دو سو صحابہ سے ملاقات کرنا ثابت نہیں، اور حضرت حسن بصری ان سے عمر میں بڑے ہیں، پھر بھی اُن کی ملاقات صرف ایک سو بیس صحابۂ کرام سے ہوئی تھی، اس کے علاوہ حضرت عطاء کی مراسیل اضعف المراسیل ہیں، جیساکہ امام سیوطی نے اس کی صراحت کی ہے۔اس لئے اس سے استدلال درست نہیں۔ ۲؎آمین بالشر ثابت نہیں مسئلۂ آمین پر ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آگیا ، اسے سناکر بات ختم کرتا ہوں۔ یہ ہندوستان کا قصہ ہے۔ بہت زمانہ پہلے یہ واقعہ پیش آیا کہ آمین بالجہر اور بالسر کے مسئلہ میں لڑائی ------------------------------ ۱؎:سنن کبریٰ للبیہقی:باب جہر الماموم بالتامین۔ ۲؎:تدریب الراوی: النوع التاسع المرسل،۱؍۱۹۵۔