موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اس کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی چیزصراحتاً یا کوئی حکم کتاب اللہ میں اور سنتِ رسول اللہ اور آثار صحابہ میں نہ ملے تو کیا وہ شخص جو علمِ لسان میں تبحرکے درجہ کو پہونچا ہوا ہے اور علوم دینیہ میں مکمل مہارت رکھتا ہے اور اس کا علمی کمال اس معیار کو پہونچ گیا ہے کہ اعجاز قرآن کا خود اپنے ذوق سے ادراک کرلیتا ہے بغیر کسی کی تقلید کئے ہوئے تو اب یہ شخص خود اپنی رائے سے معنی بیان کرسکتا ہے یا نہیں تو اس کے اندر دو قول ہیں:تفسیر بالرائے کے بارے میں کچھ علماء کا نظریہ اور ان کے دلائل: ایک قول یہ ہے کہ اتنے علمی تبحر اور کمال کے بعد بھی اپنی رائے سے معنی بیان نہیں کرسکتا، اور اپنےمستدلات میں ایک حدیث یہ پیش کرتے ہیں: ’’مَنْ تَکَلَّمَ فِی الْقُرْآنِ بِرَأْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْاَخْطَاَءَ ‘‘۱؎ ’’یعنی جس شخص نے اپنے طور پر قرآن میں کوئی گفتگو کی اور فی الواقع وہ صحیح بھی ہے تب بھی اس نے غلطی کی‘‘ اور دوسری حدیث’’مَنْ قَالَ فِیْ الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘‘۲؎ ’’یعنی جس شخص نے بغیرجانے ہوئے قرآن کی تشریح میں کلام کیا تو نارجہنم میں اسے اپنا ٹھکانا تلاش کرنا چاہئے‘‘۔ ان دونوں احادیث کے پیشِ نظر بعض علماء نےلکھا ہے کہ اس سے تفسیر بالرائے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔تفسیر بالرائے کے بارے میں جواز کا نظریہ اور اس کے دلائل: علماء کی دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ جو شخص علم لسان میں تبحر کے درجہ کو پہنچا ہوا ہو ،علوم دینیہ میں مکمل مہارت رکھتا ہو اور اعجاز قرآن کا درک رکھتا ہو تو یہ شخص کسی کی تقلید کئے بغیر تفسیر کرسکتا ہے، دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَلَوْ رَدُّوْهُ إِلَى الرَّسُوْلِ وَإِلٰى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ‘‘۳؎ ’’یعنی اگر اس خبر کو وہ لوگ اپنے رسول اور اپنے بااختیار لوگوں کی طرف لیکر جاتے تو یقیناً اس بات کو وہ لوگ جان لیتے جو قوتِ اجتہاد رکھتے ہیں‘‘ ------------------------------ ۱؎: سنن ترمذی: كتاب تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ:باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ۔ ۲؎:سنن ترمذی: كتاب تفسير القرآن عن رسول اللهﷺ:باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ۔ ۳؎:النساء:۸۳۔