موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ہے کہ جنگِ یمامہ میں قرآن کریم کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی ، اور اگر مختلف مقامات پر قرآن کریم کے حفاظ اسی طرح شہید ہوتے رہیں تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہوجائے، لہذا میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے حکم سے قرآن کریم کو جمع کروانے کا کام شروع کردیں، ‘‘ میں نے عمرسے کہا کہ جو کام آنحضرت ﷺ نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ عمرنے جواب دیا کہ خدا کی قسم ! یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد عمر مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے، یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرح صدر ہوگیاہے اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر کی ہے، اس کے بعد حضرت ابوبکرنے مجھ سے فرمایا کہ ’’تم نوجوان اور سمجھدار آدمی ہو، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بد گمانی نہیں ہے، تم رسول اللہ ﷺکے عہد میں بھی کتابت وحی کا کام انجا دیتے رہے ہو لہذا تم قرآن کریم کی آیتوں کو تلاش کرکے انہیں جمع کرو۔صحابۂ کرام کی احتیاط: حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم : اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑڈھونے کا حکم دیتے تو مجھ پر اس کا اتنا بوجھ نہ ہوتا جتنا جمع قرآن کے کام کا ہوا، میں نے اُن سے کہا کہ آپ وہ کام کیسے کررہے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا‘‘ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ خدا کی قسم: یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد حضرت ابوبکر ، مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اسی رائے کے لئے کھول دیا، جو حضرت ابوبکرو عمرکی رائے تھی، چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا، اور کھجور کی شاخوں، پتھر کی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو جمع کیا۔۱؎ اس موقع پر جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت زید بن ثابت کے طریق کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے جیسا کہ پیچھے ذکر آچکا ہے، وہ خود حافظ قرآن تھے، لہذا وہ اپنی یاداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اُس وقت موجود تھے، ان کی ایک جماعت بناکر بھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا۔ نیز قرآن کریم کے جو نسخے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں لکھ لئے گئے تھے حضرت زید ان سے بھی قرآنِ کریم نقل فرماسکتے تھے، لیکن انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف کسی ایک ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن۔