موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿ وَأَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰى عَلَى الْهُدىٰ ﴾۱؎ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ قومِ ثمود کو ہم نے ہدایت دی تھی(یعنی سیدھے راستے کی رہنمائی کی تھی)۔ انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی۔ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور خود سرکارِ دو عالمﷺ کے بارے میں فرمایا گیا کہ آپ کو ہادی بنایا گیا ہےاور آپ سیدھے راستہ کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں: ﴿ وَإِنَّكَ لَتَهْدِيْ إِلٰى صِرَاطٍ مُسْتَقِيْمٍ ﴾۲؎ ’’آپ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘ ﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُوْرًا ﴾۳؎ ’’(اور) ہم نےاسے راستہ بھی دکھایا (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو خواہ نا شکرا ‘‘ وہ جس راستے پر چلے گا اس اعتبار سے انجام دیکھے گا،جنت کے راستے پر چلے گا تو اُس راستے پر جنت آئے گی اور جہنم کے راستے پر چلے گااس راستےپر جہنم آئے گی، ان تمام آیات میں ہدایت کی یہی قسم مراد ہے۔ہدایتِ اخص الخاص: ہدایت کی تیسری قسم ’’ہدایت اخص الخاص‘‘ہے۔ یعنی مآلاً جو کام نفع بخش ہے اُس کی توفیق دینا، توفیق کا مطلب اُس کام کے اسباب مہیا کرنا،موانع کو دور کردینا ،موانع اور مخالف چیزوں میں ایسی کیفیت پیدا کرنا کہ آدمی اُس کی مخالفت نہ کرسکے۔ یہ ہدایت ’’اخص الخاص‘‘ ہے۔اس کے بعد بندہ اپنے انجام کے اعتبار سے جو کام نفع بخش ہو اسی کو اختیار کرتا ہےاور اللہ پاک اسے مطلوب تک پہونچا دیتے ہیں،ہدایت کی اس قسم کا نام ایصال الی المطلوب ہے۔کیونکہ اس میں بندہ کو اللہ پاک مطلوب تک پہونچا دیتے ہیں۔ ------------------------------ ۱؎:فصلت:۱۷۔ ۲؎:شوری:۵۲۔ ۳؎:الانسان:۳۔