موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اس مسئلہ میں فریقین کی طرف سے بہت سی روایات دلیل کے طور پر پیش کی گئی ہیں، لیکن ایسی تمام روایات یا صحیح نہیں ہیں یا صریح نہیں، اس لئے اس مسئلہ میں حضرت وائل بن حجر کی حدیث مدارِ بحث بن گئی ہے، شافعیہ اور حنابلہ بھی اسی سے استدلال کرتے ہیں اور حنفیہ و مالکیہ بھی ، اس لئے کہ اس سلسلہ میں یہی روایت صحیح ترین ہے۔ دراصل وائل بن حجر کی حدیث میں روایت کا اختلاف ہے،یہ روایت دو طریق سے مروی ہے ایک سفیان ثوری کے طریق سے ، جس کے الفاظ یہ ہیں:’’وَمَدَّ بِھَا صَوْتَہٗ‘‘۔یعنی آپ ﷺ نے ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنْ‘‘ پڑھ کر آمین کہا اور اپنی آواز کو کھینچا،دوسرے شعبہ کے طریق سے جس کے الفاظ یہ ہیں ’’وَخَفَضَ بِھَا صَوْتَہٗ‘‘ یعنی آپ ﷺ نے آمین کہی او اپنی آواز کو پست کیا۔۱؎ شوافع اور حنابلہ سفیان ثوری کی روایت کو ترجیح دے کر امام شعبہ کی روایت کو چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ حنفیہ وموالیک امام شعبہ کی روایت کو اصل قراردے کر سفیان ثوری کی روایت میں یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس میں ’’مَدَّ‘‘سے مراد جہر نہیں، بلکہ آمین کی ’’ی‘‘ کو کھینچنا ہے،اورجن روایات میں بالجہر کا ذکر ہے وہ یا تو مد بھا صوتہ کی تشریح اور روایت بالمعنی پر محمول ہیں ،یا ان میں ضعف ہے ۔روایتِ آمین بالسر کی جوہِ ترجیح: (۱)سفیان ثوری اپنی جلالتِ قدر کے باوجود کبھی کبھی تدلیس بھی کرتے ہیں ، اس کے برخلاف شعبہ تدلیس کو اشد من الزنا سمجھتے تھے، اُن کا یہ مقولہ بھی مشہور ہے۔’’ لَاَنْ اَوْقَعَ مِنَ السَّمَاءِ فَاَنْقَطِعَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اُدَلِّسَ‘‘(میں آسمان سے گرکرمرجاؤں میرے لئے یہ پسند ہے اس بات سے کہ میں تدلیس کروں) اس سے اُن کی غایت احتیاط معلوم ہوتی ہے۔ ------------------------------ ۱؎:سنن ترمذی:کتاب الصلاۃ ؍باب ماجاء فی التامین۔