موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اور متواتر قرأتیں صرف یہی ہیں، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ علامہ ابن مجاہدؒ نے محض اتفاقاً ان سات قرأتوں کو جمع کردیا تھا، اُن کا منشاء یہ ہرگز نہیں تھا کہ ان کے سوا دوسری قرأتیں غلط یا ناقابل قبول ہیں، علامہ ابن مجاہد کے اس عمل سے دوسری غلط فہمی یہ بھی پیدا ہوئی کہ بعض لوگ ’’سبعۃ احرف‘‘ کا مطلب یہ سمجھنے لگے کہ محض یہی سات قرأتیں صحیح قرأتوں کاایک حصہ ہیں، ورنہ ہر وہ قرأت جو مذکورہ بالا تین شرائط پر پوری اُترتی ہو، صحیح قابل قبول اور ان سات حروف میں داخل ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا۔سات قراء: بہر حال! علامہ ابن مجاہدکے اس عمل سے جو سات قاری سب سے زیادہ مشہور ہو ےوہ یہ ہیں: (۱)عبداللہ بن کثیرالداری(متوفی۱۲۰ھ)۔(۲)نافع بن عبدالرحمن بن ابی نعیم (متوفی ۱۶۹ھ) ۔ (۳)عبداللہ الحصبی، جو ابن عامر کے نام سے معروف ہیں (متوفی ۱۱۸ ھ)،(۴)ابو عمر دزبان بن العلا(متوفی ۱۵۴ھ) ،(۵)حمزۃ بن حبیب الزیات مولیٰ عکرمہ بن ربیع التیمی(متوفی ۱۸۸ھ)،(۶)عاصم بن ابی النجود الاسدی (متوفی ۱۲۷ھ)آپ کی قرأت کے راویوں میں شعبہ بن عیاش(متوفی ۱۹۳ھ) اور حفص بن سلیمان(متوفی :۱۸۰ھ) زیادہ مشہورہیں ۔آجکل عموماً تلاوت انہی حفص بن سلیمان کی روایت کے مطابق ہوتی ہے۔(۷)ابو الحسن علی بن حمزۃ الکسائی النحوی (متوفی ۱۸۹ھ) مؤخر الذکر تینوں حضرات کی قرأتیں زیادہ تر کوفہ میں رائج ہوئیں۔تاریخ حفاظتِ قرآن: عہد رسالتﷺ میں جمع قرآن : قرآن کریم چونکہ ایک ہی دفعہ پورا کا پورا نازل نہیں ہوا، بلکہ اس کی مختلف آیات ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل کی جاتی رہی ہیں، اس لئے عہدِ رسالتﷺ میں یہ ممکن نہیں تھا کہ شروع ہی سے اُسے کتابی شکل میں لکھ کر محفوظ کرلیا جائے، چنانچہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ زور حافظہ پر دیا گیا، شروع شروع میں جب وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ اُس کے الفاظ کو اُسی وقت دہرانے لگتے تھے، تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں، اس پر سورۂ