موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اللہ پاک کا حضرت داؤد سے خطاب حق تعالیٰ شانہ نے داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿يَادَاوُوْدُإِنَّاجَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوىٰ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾۱؎ ’’اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے، تم لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے راستے سے بھٹکا دے گی ،جو لوگ خدا کے راستے سے بھٹکتے ہیں انکے لئے سخت عذاب تیار ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ‘‘ مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ نبی کی طبیعت ہی سیدھی ہوتی ہے، ان کی طبیعت اور فطرت سلیم ہوتی ہے، سارے نبی متبع ہی ہوتے ہیں اور جس کی طبیعت سیدھی ہوتی ہے اُس کی خواہش بھی سیدھی ہی ہوتی ہے۔جب ان کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر تم اپنی خواہش پر چلوگے تو صحیح راستے پر نہیں رہ سکوگےتو غیرنبی جس کی طبیعت میں کجی ہوتی ہے وہ اپنی خواہش پر چلے گا تو سیدھے راستے پر کیسے چل سکتا ہے؟ ﴿وَمَنْ يُّرِدْ أَنْ يُضِلَّهٗ يَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ﴾۲؎ ’’اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اورگھٹا ہوا کریتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اس طرح خدا ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے ۔ ‘‘ اُس کے دل میں ایک قسم کی تنگی پیدا ہوجاتی ہے، واضح بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔گمراہی بندہ کے اختیار کرنے سے آتی ہے: ﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتّٰى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ﴾۳؎ ------------------------------ ۱؎:ص:۲۶۔ ۲؎:الانعام:۱۲۵۔ ۳؎:التوبۃ:۱۱۵۔