موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
رسول کی بے وقعتی اور بے عظمتی اور دین سے دوری اور جہالت سے پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ کہ اُس نے مقامِ نبوت اور مرتبۂ نبوت کو نہیں سمجھا، اُس نے نبی ﷺ کی عظمت کو نہیں پہچانااور آپ کے عمل کو بے حیثیت سمجھا ،اس لئے یہ سوال کیا۔ایک حدیث میں ہے : ’’كَانَ النَّبِیُّ ﷺ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِی شَأْنِهٖ كُلِّهٖ، فِي طُهُورِهٖ وَتَرَجُّلِهٖ وَتَنَعُّلِهٖ‘‘۱؎ ’’نبی ﷺ ہر (اچھی )چیز میں تیمن (داہنی طرف)کو پسند کرتے تھے یہاں تک کہ وضوء میں بھی ،کنگھی کرنے میں بھی اور جوتا پہننے میں بھی۔‘‘ یہاں یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ آپ کنگھی کرنے میں جوتا پہننے میں دائیں جانب کو پسند فرماتے تھے ؟یہ تو سنن عادیہ میں سے ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ در اصل یہ بتانا ہے کہ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے،ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے۔اگر آپ بائیں جانب بھی کنگھی کریں گےتب بھی آپ کے بال جم جائیں گے۔آپ کا مقصود تو حاصل ہوجائےگا،آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا،لیکن نبی کا طریقہ چھوٹ جائے گا،اس طریقہ پر عمل کرنے سے جو ثواب کی امید تھی وہ ختم ہوجائے گی۔ اس کا ایک بہت براانجام یہ ہوگا کہ آدمی سنت نبوی کو ہلکا اور بے اہمیت سمجھنے لگےگا،اور آہستہ آہستہ چھوٹی سنتوں کو بے اہمیت سمجھنے سے بڑی سنتوں کے بارے میں بھی یہ ذہن بنتا جائےگا، اور آدمی اس کو بھی بے حیثیت سمجھنے لگے گا،اس لئے ان چیزوں کی آدمی جب قدر کرے گا اور اس کی اہمیت سمجھے گا،تو بڑی چیزوں کی قدر اس کے لئے آسان ہوگی،اس پر عمل کرنا آسان ہوگا۔ امام غزالی نے فرمایا کہ ایسا ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری:الصلاۃ؍ باب التيمن فی دخول المسجِد وغيره۔