موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ ﴾اے رب ہم دنیا میں بھی حسنہ آپ سے مانگتے ہیں اور آخرت میں بھی ۔ جو ایمان لاکر آخرت کا حسنہ اللہ تعالیٰ سے مانگ لے اوراللہ تبارک وتعالیٰ کی رحیمیت میں آنا چاہے تو پھر اُس کےلئے ﴿ذَرْهُمْ يَأْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ﴾کا اصول نہیں ہےکہ اسے آزاد چھوڑ دیا جائے ،جو چاہے وہ کھائے ، پئیےاور مزے اُڑائے،بلکہ اس خصوصی رحمت مین شامل ہونے کے لئے ان چیزوں کو کرنا پڑے گا،جن کا ذکر اُن آیات مبارکہ میں ہےجن میں صفتِ رحیم کو ذکر کیا گیا ۔ صفتِ ’’رحیم ‘‘کے اخروی نعمتوں کے ساتھ جوڑ کی چند مثالیں: ﴿ نَبِّئْ عِبَادِيْ أَنِّي أَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ﴾۱؎ (اے میرے پیغمبر )میرے بندوں کو بتادو کہ میں بڑا بخشنے والا (اور)مہربان ہوں۔ یہ معافی اور رحم دنیا سے تعلق نہیں رکھتی، آدمی کو آخرت میں معافی اور رحمت درکار ہے۔ ﴿إِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ وَأَصْلَحُوْا فَإِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾۲؎ ’’ہاں جو لوگ توبہ کرلیں اور (اپنی حالت)سدھارلیں تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والااور رحم کرنے والا ہے۔ یہاں پر لفظ ’’رحمن‘‘ استعمال نہیں کیاگیا ۔اگر چہ یہ یہاں استعمال کیا جاسکتاہے، لیکن قرآن کریم کا عجیب اعجاز ہے، اس کا ایک خاص اسلوب ہے،یہاں اللہ پاک نے رحیم کا لفظ استعمال کرکے بتایا کہ جس نے گناہ کے بعد توبہ کرلیا اور اپنی حالت درست کرلی تو اب وہ خاص رحمت کا مستحق ہوگیا،جو خاص رحمت اس پر آخرت میں ہوگی، کیونکہ عام رحمت کافر،فاسق اور گنہگار سب پر ہے لیکن جس نے ان سے برأت کرلی اور فاسقوں اور فاجروں کے زمرہ سے نکل گیاتو وہ اب خاص رحمت کا مستحق ہوگیا، اس لئے رحیم کا لفظ استعمال فرمایا، ایک اورجگہ ارشاد ہے: ------------------------------ ۱؎:الحجر:۴۹۔ ۲؎:النور:۵۔