موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کمالات پر کسی کی خوبی اور تعریف کرنا اور اس تعریف میں بھی عظمت اور محبت کا پہلو غالب ہونا،اور شکرمیں یہ چیز یں نہیں ہوتیں، کیونکہ شکر کا مطلب ہے احسان کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنا،اس سے ظاہر ہے کہ حمد کا جو مفہوم ومطلب ہے وہ شکر سے ادا نہیں ہوسکتا ،ایسے ہی یہاں حمد کے بجائے مدح بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ مدح اور حمد میں بھی فرق ہے،جیسا کہ گذرچکا ہے۔لیکن اُردو میں ان سب کیلئے ’’تعریف‘‘ کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ عربی میں یہ بات نہیں ہے۔ عربی میں ’’تعریف‘‘ کے لیے مدح کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے اور حمد کابھی۔ لیکن اختیاری کمال کے لیے ’’حمد‘‘ کا لفظ آتا ہے اور غیراختیاری خوبی کے لیے ’’مدح‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ موتی میں چمک زیادہ ہے تو آپ اس کی تعریف کریں گے۔ اُردو میں لفظ ’’تعریف‘‘ کہیں گے مگر عربی میں اُس کے لیے ’’حمد‘‘ اور شکر نہیں استعمال کریں گے بلکہ’’مدح‘‘ استعمال کریں گے۔ گلاب کی پنکھڑی دیکھ کر آپ کی طبیعت مچل گئی کہ کیا اس میں نزاکت ہے! اور کیا اس میں لطافت ہے! کیا اس میں خوبصورتی ہے! عربی میں ایسی تعریف کے لیے’’مدح‘‘ کا لفظ ہے، یہاں ’’حمد‘‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوگا۔ یہ پھول کی ’’مدح‘‘ ہورہی ہے، پھول کی ’’حمد‘‘ نہیں ہوسکتی، موتی کی ’’حمد‘‘ نہیں ہوسکتی، یاقوت و زمرد کی ’’حمد‘‘ نہیں ہوسکتی، کسی حسینہ و نازنین کی ’’حمد‘‘ نہیں ہوسکتی، چاند و سورج کی وسعتوں کی ’’حمد‘‘ نہیں ہوسکتی، پہاڑوں اور دریاؤں کی ’’حمد‘‘ نہیں ہوسکتی، یہ سب ’’مدح‘‘کے ذیل میں آئیں گے۔ لفظ ’’حمد‘‘ میں جو بات ہے وہ نہ شکر میں ہے اور نہ مدح میں، کیونکہ ’’حمد‘‘ کا استعمال اختیاری کمال پرعظمت اور محبت کے ساتھ ہوتا ہے،اور حق تعالیٰ شانہ ہی کے پاس اختیاری کمالات ہیں اور انہی کی تعظیم کی جاسکتی ہے اس لئے لفظ حمد ہی یہاں مناسب ہے ۔ اس کے بعد’’للہ‘‘ ہے۔ ’’اللہ‘‘ کے بجائے اگر ’’غفور‘‘ یا کوئی اوراسم مبارک ہوتا کہ سب تعریفیں غفور کے لیے ہیں، تو اس میں وہ مفہوم ادا نہیں ہوتا جو اسم اللہ سے ہوتا ہے ، کیونکہ تعریف کے لیے کمالات کا آنا ضروری ہے اور’’اللہ‘‘ کہتے ہیں اُس ذات کوجو