موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
نبی ﷺ نے قرأت کو وہیں سے لیا جہاں پر حضرت ابو بکر نے ختم کیا تھا۔ حسین سلیم اسدکہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے‘‘۔ ’’عباس بن عبد المطلب سے روایت ہے کہ آپﷺ نے اپنی مرضِ وفات میں ارشاد فرمایا کہ ابو بکرکو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے،اور(جب) نبیﷺ نے (اپنی طبیعت میں)خفت اور ہلکا پن محسوس کیا تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لیتے ہوئے نکلے،حضرت ابو بکر پیچھے ہوئے ،آپﷺنے ان کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی جگہ ٹہرےرہیں،پس آپ آئے اورحضرت ابو بکر کے پہلو میں بیٹھ گئے،پھر سورت کی اسی جگہ سے قرأت فرمائی جہاں حضرت ابو بکر نے ختم فرمایا تھا۔۱؎ ایک اور روایت میں آیا ہے: ’’وَاسْتَفْتَحَ النَّبِیُّ ﷺ مِنْ حَيْثُ اِنْتَهٰى أبُوْ بَكْرٍ مِنَ الْقِرَاءَةِ‘‘۲؎ اور نبیﷺ نے قرأت وہیں سے شروع کی جہاں پر ابو بکرنے ختم فرمایا تھا۔ یہ روایتیں اس باب میں صریح ہیں کہ نماز میں امام کے پیچھے فاتحہ ضروری نہیں ہے ، کیونکہ امام طحاوی کی صراحت کے مطابق ان روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپﷺ حضرت ابو بکر کی قرأت کےدوران نماز میں شریک ہوئے اور اس وقت تک یا تو آپ نے سورۂ فاتحہ ختم کرکے دوسری سورت شروع کی تھی یا کم از کم سورۂ فاتحہ کی کچھ تلاوت تو ہوگئی تھی اس کے بعد آپﷺ نے ما بقیہ حصہ پڑھا ۔ظاہر کہ پہلی صورت میں مکمل سورۂ فاتحہ ترک ہوگئی اور دوسری صورت میں کچھ نہ کچھ حصہ آپﷺ کا ترک ہوا،معلوم ہواکہ آپ کی یہ آخری نمازوں میں سے ایک نماز تھی ------------------------------ ۱؎:سننِ دارِ قطنی:باب صفۃِ صلاۃ التطوع فی السفرالخ،۱۵۰۱ ۔ ۲؎:معجمِ طبرانی:۱۲۴۶۷،وشرح معانی الآثار:کتاب الصلاة:باب صلاة الصحیح خلف المریض و سنن بیھقی:۵۲۸۱، کتاب الصلاۃ:باب ما روى فى صلاة المأموم قائماالخ۔