موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
اس میں کچھ اصولی بحثیں ہوتی ہیں، مثال کے طور پر حدیثوں کا مضمون قرآن شریف سے نہیں مل رہاہے تو اُس کوتطبیق یعنی ملانے کی کوشش کی جائے گی نہیں ملے گا تو چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ تو سب ہی سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید مقدم ہے اور حدیث اُس کے بعد ہے۔ قرآن شریف میں تو آگیا ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا﴾ ’’جب قرآن شریف پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو‘‘۔ اب حدیث میں کچھ بھی ہو لیکن اُسے اسی آیت پر لایا جائے گا۔ اُس کا مفہوم آیت سے متعلق نکالا جائے گا۔ اگر مفہوم نکلتا ہے تو نکالا جائے گا ورنہ اس کی کوئی تاویل کی جائے گی کہ کوئی بات ہے جس کی وجہ سے اُس پر عمل نہیں ہوسکتا، اسے علماء سمجھتے ہیں،کیونکہ اصل اس میں آیت کریمہ ہے، کیونکہ آیت نص قطعی ہوتی ہے۔ احادیث ظنی طور پردلالت کرنے والی ہوتی ہیں، اُن کا درجہ دوسرے نمبر پر ہوتا ہے، آیت کی وجہ سے دوسری حدیثوں میں پائے جانے والے معنی ملاکر اُن حدیثوں کی توجیہ کی جاتی ۔ اُن کو ملانے کےبھی کچھ ضابطے اور اصول ہیں۔ ہر زمانے میں اس مسئلے پر بحث ہوئی۔ امام ابوحنیفہ کے زمانے میں بھی بہت بحثیں ہوئی۔ کچھ لوگ امام ابوحنیفہ سے مناظرہ کرنے کے لیے گئے کہ ہم آپ سے اس مسئلے میں بحث کرنا چاہتے ہیں چونکہ اس بارے میں احادیث بہت سی موجود ہیں کہ سورۂ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہیے۔ دس پندرہ افراد اپنے اپنے دلائل دینے لگے۔ امام ابوحنیفہنے فرمایا کہ سب بیٹھ جاؤ اور تم میں سے جو سب سے زیادہ باصلاحیت ہو وہ مجھے اپنا مسئلہ بتائے، میں اُسے سن کر اُس کا جواب دوں گا۔ سب اس پر متفق ہوگئے کہ ایک آدمی ہماری طرف سے بات کرے گا اور ہم سب خاموش رہیں گے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ جاؤ! مسئلہ حل ہوگیا۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت! آپ نے تو کوئی بھی دلیل نہیں دی، مسئلہ کیسے حل ہوگیا؟ فرمایا کہ ہم لوگ بھی سورۂ