موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
نازل ہوئی، دوسری بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے،اور خطبۂ جمعہ مدینہ منورہ میں مشروع ہوا،تو کیسے یہ آیت خطبے کے بارے میں ہوسکتی ہے؟ آپ لوگ انداز کرچکے ہیں کہ قرآن پاک کے ہر ہر لفظ میں نزاکت ہے۔ ’’سنو‘‘ کہنا کافی تھا ’’خاموش رہو‘‘ کیوں کہاگیا؟ مفسرین نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں سنائی دے رہا ہے تو سنو اور اگر تمہیں سنائی نہیں دے رہا ہے تو خاموش رہو۔۱؎ اس وجہ سے بڑی جماعت ہے تو قریب والوں کو سنائی دیتا ہے اور دور والوں کو سنائی نہیں دیتا۔ کوئی آدمی دور ہے وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں تو دور ہوں، مجھے سنائی نہیں دے رہا، میں کیا کروں؟ اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر سنائی نہیں دے رہاہے تو خاموش رہو۔اور باضابطہ حضور ﷺنے بھی منع فرمادیا۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِه .. وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا‘‘۲؎ ’’امام کو مقرراسی لئے کیا گیا ہے تاکہ اُس کی اقتداء کی جائے لہٰذا ..جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔‘‘ایک اہم بات یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث ابھی ہم بتاچکے ہیں کہ’’من صلی صلٰوة لم یقرأ فیها باُمّ القرآن فهی خداج‘‘ کہ سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز نا قص اور نا تمام ہوتی ہے۔ یہی حضرت ابوہریرہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ کو یہ علم بعد میں ہوا اور انہوں نے اسے بتادیا۔ پھر محدثین نے اس روایت کو نقل کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ محدثین نے ہر وہ بات جو حدیث ہونے کی حیثیت سے آئی اور صحیح سند کے ساتھ مل ------------------------------ ۱؎:روح المعانی:۵/۱۴۲۔ ۲؎:سنن ابی داود :الصلاۃ؍ باب الامام يصلي من قعود۔