موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
میں سے کسی نے کہا کہ جی ہاں! پڑھ رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ پڑھ رہے تھے کیونکہ کچھ لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگئی تھی اور کچھ لوگوں کو معلوم نہیں ہوئی تھی۔ آپﷺ نےفرمایا کہ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ لوگ میرے ساتھ قرآن میں جھگڑ کیوں رہے ہیں؟(سنن ابی داؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ،بَابُ مَنْ كَرِهَ الْقِرَاءَةَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ) کیونکہ جب ایک آدمی قرآن پڑرہا ہو اور دوسرا بھی پڑھنے لگےتوایک قسم کاڈسٹرب(Disturb)ہوجاتاہے اورصرف زورسےپڑھنےسےڈسٹرب (Disturb) نہیں ہوتا آہستہ پڑھنے سے بھی ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی اچھا وضو نہ کرے اور میرے پیچھے کھڑا ہو تو میری نماز میں خلل ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پیچھے قرأ ت مت کرو۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ آپ نے قرأت پر ممانعت فرمائی تھی اور صحابہ اس سے رک گئے تھےاوراس میں آپ نے علت بھی بیان کردی ۔اور یہ علت جس طرح قرأت میں پائی جاتی ہے اسی طرح سورۂ فاتحہ میں بھی پائی جاتی ہے،لہٰذا فاتحہ کی بھی ممانعت اس سے ثابت ہوئی۔ پھر قرآن کریم کی ایک آیت نازل ہوگئی۔ جس کا یہ مضمون ہے: ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا﴾۱؎ ’’جب قرآن پاک پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو‘‘۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت خطبۂ جمعہ کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ نماز ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے،خطبہ ضمناً اس میں شامل ہے،جیسا کہ حافظ ابن جریر ،ابنِ ابی حاتم رازی،اور امام بیہقی نے مرسل روایتیں اور آثارِ صحابہ کو بیان کیا ہے،جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ آیت نماز ہی کے بارے میں ------------------------------ ۱؎ :الاعراف :۲۰۴۔