موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور سورت نہ پڑھی ہو‘‘۔ اس روایت سے سورۂ فاتحہ کے ساتھ ساتھ ضم ِسورت کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے،اب اس زیادتی کا کیا جواب ہے،جو جواب اس کا ہے وہی جواب سورۂ فاتحہ کی قرأت کا ہے۔بلکہ حنفیہ کہتے ہیں کہ حدیث کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جو شخص مطلق قرأت نہ کرے، نہ سورۂ فاتحہ ، اور نہ ضم سورت تو اس کی نماز نہیں ہوتی،لہذا اس حدیث کا تعلق مطلق قرأت سے ہے نہ کہ سورۂ فاتحہ سے ۔ اور دوسری دلیل:’’لَاصَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَءْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ‘‘۱؎ ’’اس شخص کی نماز ہی نہیں ہوتی جس نے فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی‘‘ اس حدیث کے متعلق ہماری تحقیق یہ ہے کہ ہم اس کو امام یا منفرد پر محمول کرتے ہیں کہ امام کی نماز یا منفرد کی نماز بغیر فاتحہ کے نہیں ہوتی۔ مقتدیوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔کیونکہ مقتدی امام کے تابع ہوتا ہے،اور جب مقتدی امام کے تابع ہوتا ہے تو اسے قرأت کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ امام کی قرأت مقتدی کے لئے کافی ہے،جیساکہ ایک حدیث مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہے: ’’ مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَاءَ ةُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَ ةٌ‘‘۲؎ ’’جن لوگوں کا کوئی امام ہو تو امام کا پڑھنا مقتدیوں کا ہی پڑھنا ہے‘‘ قرأت کی دو قسمیں ہیں۔(۱)حقیقی(۲)حکمی ۔ حقیقی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی واقعۃً پڑھے۔حکمی کا مطلب یہ ہے کہ حقیقۃً تو قرأت نہ کی جائے لیکن وہ پڑھنے کے حکم میں ہوجائے۔یہاں آپﷺ کا یہ ارشادکہ ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری:الصلاۃ؍باب وجوب القراءة للامام والماموم ۔ ۲؎:سنن ابن ماجہ: كتاب إقامۃ الصلاة والسنة فيها ؍باب اذا قرأالامام فانصتوا۔