موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِیْ بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ فَكَانُوْا يَسْتَفْتِحُوْنَ بِ{ الْحَمْد لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ }لَا يَذْكُرُوْنَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ فِيْ أَوَّلِ قِرَاءَةٍ وَلَا فِي آخِرِهَا۔۱؎ حضرت انسفرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ،ابو بکر،عمر اورعثمان کےپیچھےنماز پڑھی،پس وہ لوگ الحمد اللہ رب العالمین سے (قرأت) شروع کرتے تھے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے،نہ قرأت کے شروع میں اور نہ آخر میں ۔ حضرت عبد اللہ ابنِ مغفل سے بھی ایک روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو جہراً بسم اللہ پڑھتے ہوئے سنا تو کہا کہ میں نے نبیﷺ اور حضرت ابو بکر ،عمر،اورعثمان کے پیچھے نماز پڑھی،لیکن کسی سے بھی جہراً بسم اللہ نہیں سنی لہٰذا تم بھی مت پڑھو۔اور یہ اسلام میں نئی چیزہے۔اس کے بعد امامِ ترمذی نے لکھا ہے کہ یہی اہلِ علم کا مذہب اور خلفاء راشدین کا طریقہ ہے،اور ان کےبعد تابعین کا بھی یہی مذہب ہے،اور امامِ احمد،سفیان ثوری،عبد اللہ ابن مبارک اور اسحاق ابن راہویہ اسی کے قائل ہیں کہ بسم اللہ جہراً نہیں پڑھی جائے گی ؛بلکہ دل میں پڑھی جائے گی۔۲؎ لہذا اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بسم اللہ جہرا ًنہیں پڑھنی ہے ، نہ آپ کا یہ عمل تھا اور نہ خلفاء راشدین کا اور نہ تابعین وغیرہ کا۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح مسلم:کتاب الصلاۃ؍ باب حجۃ من قال لا یجہر بالصلاۃ۔ ۲؎:سننِ ترمذی:کتاب الصلاۃ؍باب ما جاءفی ترک الجہر بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔