موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
ان کے ساتھ از سرنو مقابلہ کرکے یہ نسخے تیار کئے گئے، اس مرتبہ سورۂ احزاب کی ایک آیت :’’مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ‘‘ علاحدہ لکھی ہوئی صرف حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ آیت کسی اور شخص کو یاد نہیں تھی، کیونکہ حضرت زید خود فرماتے ہیں کہ ’’مصحف لکھتے وقت سورۂ احزاب کی وہ آیت نہ ملی جو میں رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا‘‘ اس سے صاف واضح ہے کہ یہ آیت حضرت زید اور دوسرے صحابہ کو اچھی طرح یاد تھی، اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہ آیت کہیں اور لکھی ہوئی نہ تھی، کیونکہ حضرت ابوبکرکے زمانے میں جو صحیفے لکھے گئے ظاہر ہے کہ یہ آیت اُن میں موجود تھی، نیز دوسرے صحابہ کے پاس قرآن کریم کے جو انفرادی طور پر لکھے ہوئے نسخے موجود تھے ان میں یہ آیت بھی شامل تھی، لیکن چونکہ حضرت ابوبکرکے زمانے کی طرح اس مرتبہ بھی اُن تمام متفرق تحریروں کو جمع کیا گیا تھا جو صحابۂ کرامکے پاس لکھی ہوئی تھیں اس لئے حضرت زید وغیرہ نے کوئی آیت ان مصاحف میں اُس وقت تک نہیں لکھی جب تک اُن تحریروں میں بھی وہ نہ مل گئی، اس طرح دوسری آیتیں تو متعدد صحابہ کے پاس علاحدہ لکھی ہوئی بھی ملیں، لیکن سورۂ احزاب کی یہ آیت سوائے حضرت خذیمہ کے کسی اور کے پاس الگ لکھی ہوئی دستیاب نہیں ہوئی۔ (۵)قرآن کریم کے یہ متعدد معیاری نسخے تیار فرمانے کے بعد حضرت عثمان نے وہ تمام انفرادی نسخے نذرِ آتش فرمادیئے جو مختلف صحابہ کے پاس موجود تھے تاکہ رسم الخط ، مسلمہ قرأتوں کے اجتماع اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے تمام مصاحف یکساں ہوجائیں، اور ان میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے۔ حضرت عثمان کے اس کارنامے کو پوری امت نے بنظرِ استحسان دیکھا، اور تمام صحابہ نے اس کام میں اُن کی تائید اور حمایت فرمائی، صرف حضرت عبداللہ بن مسعود کو اس معاملہ میں کچھ رنجش رہی جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، ( تفصیل کے لئے’’علومِ قرآن‘‘ملاحظہ فرمائیے) حضرت علی فرماتے ہیں:’’عثمان کے بارے میں کوئی بات اُن کی بھلائی کے سوا نہ کہو، کیونکہ اللہ کی قسم! انہوں نے مصاحف کے معاملہ میں جو کام کیا ہے وہ ہم سب کی موجودگی میں مشورے سے کیا‘‘۱؎ ------------------------------ ۱؎:فتح الباری : ۹ ؍ ۱۵۔