موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے، اُس وقت تک اس اختلاف سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، لیکن جب یہ اختلاف دور دراز ممالک میں پہنچا اور یہ بات اُن میں پوری طرح مشہور نہ ہوسکی کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے، تو اس وقت لوگوں میں جھگڑے پیش آنے لگے بعض لوگ اپنی قرأت کو صحیح اور دوسرے کی قرأت کو غلط قراردینے لگے، ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآن کریم کی متواتر قرأتوں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی میں مبتلا ہوں گے، دوسرے سواۓ حضرت زید کے لکھےہوۓ ایک نسخہ کے جو مدینہ طیبہ میں موجود تھا، پورے عالم اسلام میں کوئی ایسا معیاری نسخہ موجود نہ تھا جو پوری امت کے لئے حجت بن سکے، کیونکہ دوسرے نسخے انفرادی طور پر لکھے ہوئے تھے، اور ان میں ساتوں حروف کو جمع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، اس لئے ان جھگڑوں کے تصفیہ کی قابلِ اعتماد صورت یہی تھی کہ ایسے نسخے پورے عالم اسلام میں پھیلادیئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اور انہیں دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ کونسی قرأت صحیح اور کونسی غلط ہے، حضرت عثمان نے اپنے عہد خلافت میں یہی عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ اس کارنامے کی تفصیل روایات حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان آرمینیا اور آذر بیجان کے محاذ پر جہاد میں مشغول تھے، وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قرأتوں کے بارے میں اختلاف ہورہا ہے، چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی وہ سیدھے حضرت عثمان کے پاس پہونچے، اور جاکر عرض کیا کہ امیر المؤمنین! قبل اس کے کہ یہ اُمت اللہ کی کتاب کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلافات کی شکار ہو، آپ اس کا علاج کیجئے، حضرت عثمان نے پوچھا بات کیا ہے؟ حضرت حذیفہنے جواب میں کہا کہ میں آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں شامل تھا وہاں میں نے دیکھا کہ شام کے لوگ اُبی بن کعب کی قرأت پڑہتے ہیں، جو اہلِ عراق نے نہیں سنی ہوتی ہے، اور اہل عراق عبداللہ بن مسعود کی قرأت کے مطابق پڑہتے ہیں جو اہل شام نے نہیں سنی ہوتی ہے، اس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو کافر قراردے رہے ہیں۔ حضرت عثمان خود بھی اس خطرے کا احساس پہلے ہی کرچکے تھے، انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ قرآن کریم کے ایک معلم نے اپنے شاگردوں کو ایک قرأت کے مطابق قرآن پڑھایا، اور دوسرے معلم نے دوسری قرأت کے مطابق، اس طرح مختلف اساتذہ کے شاگرد جب باہم ملتے تو ان میں اختلاف ہوتا، اور بعض مرتبہ یہ اختلاف اساتذہ تک