موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
ایک اور جگہ ارشاد ہے: ’’أَمْ يَحْسَبُوْنَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ‘‘۱؎ کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی خفیہ باتیں اور ان کی سر گوشیاں نہیں سنتے؟ ابنِ عباس اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اَلسِّرُّمَا أسَرَّ ابْنُ آدَمَ فِيْ نَفْسِهٖ‘‘۲؎ سر وہ ہے جو ابن آدم اپنے نفس میں چھپائے۔ معلوم ہواکہ آدمی کے نفس میں بھی کلام ہوتا ہے،بات ہوتی ہے ۔ اسی طرح کئی احادیث ِ مبارکہ بھی اس مضمون کو بتلاتی ہیں،چناچہ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں : ’’سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَسَألَهٗ رَجُلٌ ،فَقَالَ:إنِّيْ لَأحدِّثُ نَفْسِيْ بِالشَّيْءِ لَوْتَكَلَّمْتُ بِهٖ لَأحْبَطَتْ أجْرِيْ،فَقَالَ:لَا يُلْقٰى ذَلِكَ الْكَلَامُ إلَّا مُؤمِنٌ‘‘۳؎ میں نے رسول اللہﷺسے سنا ہے،جبکہ ایک آدمی نے آپﷺ سے سوال کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ میرے دل میں ایسی باتیں پیدا ہوری ہیں یا میں اپنے دل میں ایسی باتیں سوچتا ہوں کہ اگر میں زبان سے اس کو ادا کروں تو وہ میرے اعمال ہلاک اور برباد کر دیں گی ،تو آپ نے فرما یا کہ یہ کلام نہیں ڈالاجاتا ہے مگر مومن کے دل میں ۔ اس حدیث میں واضح طور پر نبیﷺ نےدل میں آنے والے اس خیال اور تصور کواور اس بات کو کلام قرار دیا ،معلوم ہوا کہ دل میں جو بات آتی ہے اور جو خیال آتا ہے وہ بھی کلام ہوتا ہےجس کو ہم کلامِ نفسی کہتے ہیں، زبان سے جو ہم الفاظ نکالتے ہیں تو یہ الفاظ اس کلام پر دلالت کرنے والے اور اس کلام پرہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے : فَإِنْ ذَكَرَنِيْ فِي نَفْسِهٖ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِیْ(الصحیح البخاری:کتاب التوحید:باب قول اللہ تعالیٰ ویحذرکم اللہ نفسہ) ( اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں ) جب بندہ اپنےنفس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اپنے نفس میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ ------------------------------ ۱؎: الزخرف:۸۰ ۔ ۲؎:تفسیر ابن کثیر:۵؍۲۷۵۔ ۳؎:معجم طبرانی:باب من اسمہ الحسن:رقم:۳۵۷۔