موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
﴿ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جَاهَدُوْا وَصَبَرُوْا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾۱؎ ’’پھر جن لوگوں نے ایذائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا۔ پھر جہاد کئے اور ثابت قدم رہے تمہارا پروردگار ان کو بےشک ان (آزمائشوں) کے بعد بخشنے والا (اور ان پر) رحمت کرنے والا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ جنہوں نے دین کےلئے مشقتیں برداشت کیں،اللہ کے راستہ میں پہونچائی جانے والی ایذاؤں پر صبر کیا،حتی کہ اپنے وطن کو، جان کو، مال کو اوراولاد کو چھوڑ دیا تو وہ خصوصی رحمت کےمستحق ہوں گے،کیونکہ عمومی رحمت میں سب شامل ہیں،اس لئے خصوصی رحمت ان کے لئے نہیں تو پھر کس کے لئے ہوگی،اس لئے یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے رحیم کا لفظ استعمال کرکے بتایا کہ یہ لوگ بھی خصوصی رحمت کے مستحق ہیں۔ خصوصی رحمت کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں جہنم سے نجات عطا فرمائیں گے،اور ایسی نعمتیں انہیں دیں گے کہ کبھی نہ ان کی آنکھوں نے دیکھا ہوگا ،نہ کانوں نے سنا ہوگا،نہ دل میں اس کا خیال آیا ہوگا،سب سے بڑی نعمت رضاءِ الٰہی اور دیدارِ الٰہی ہوگا،ایسی عزت ملے گی جس کے بعد کبھی ذلت نہیں ہوگی۔ ایسا غناملے گا جس کے بعد کبھی فقر نہیں آئے گا۔ ایسی تندرستی ملے گی جس کے بعد کوئی بیماری نہیں آئے گی۔ ایسی جوانی ملے گی جس کے بعد کوئی بڑھاپا نہیں آئے گا۔ ایسی زندگی ملے گی جس کے بعد کوئی موت نہیں آئے گی۔ ایسی نعمتیں ملیں گی جو کبھی بھی ختم نہیں ہوں گی، کوئی اس کی لمٹ(Limit) نہیں ہوگی۔ ۱؎:النحل:۱۱۰۔