موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
کوئی جبر اُن پر نہیں، کوئی زبردستی اُن پر نہیں،کوئی تقاضہ ان پر نہیں، کوئی استحقاق ان پر نہیں، بس وہ اپنی رحمت اور مہربانی سے ہمیں پالتے ہیں ۔ کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ دوسرے خدا جوان کے خود ساختہ بیٹھے ہیں اُن لوگوں نے اللہ تعالیٰ پر دباؤ ڈالا تو اللہ تعالیٰ یہ نظام بنانے پرمجبور ہوگئے، ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ وہ رحمٰن و رحیم ہے اس وجہ سے انہوں نے ایسا کیا۔ اب حق تعالیٰ شانہ کا یہ مہربانی و رحمت فرمانا خاص بھی ہوتا ہے اور عام بھی ہوتا ہے، دنیا کا بھی ہوتا ہے اور آخرت کا بھی ہوتا ہے، اپنوں کے لیے بھی ہوتا ہے اور دوسروں کیلئے بھی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہاں پر دو رحمتوں کا تذکرہ فرمایا، آدمی دنیا میں خدا کی رحمت سے پوری طرح متمتع نہیں ہوسکتا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانوں کا کچھ بھی حصہ دنیا میں نہیں ۔حقیقی نعمتیں تو آخرت میں ہمارے لئے رکھی گئی ہیں اس لئے دو صفتوں کا ذکر فرمایا کہ صفتِ رحمن کے نتیجہ میں دنیا میں تم نعمتوں سے مستفید ہوں گے اور صفت رحیم کے نتیجہ میں آخرت میں نعمتوں سے مستفید ہوں گے۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ایک دعوت کریں تو دنیا میں اس کے اشیاءضیافت آ ہی نہیں سکتے، بڑوں کا ایک اصول ہے کہ جب اُن کے گھر کوئی آتا ہے تو اُس کا اکرام کیا جاتا ہے، اُس کو کچھ کھلایا پلایا جاتا ہے،اسی طرح جو آدمی نماز پڑھنے کے لیے مسجد جاتا ہے تو بعض روایتوں میں ہے کہ وہ اللہ کا مہمان ہوتا ہے،جتنی مرتبہ یہ آئے گا اُتنی مرتبہ دعوت ہوگی، ایک دعوت میں ایک دسترخوان پر سینکڑوں کھانے ہوں گے،اور ایسے کئی دستر ہوں گے،اور ہر آدمی کی جنت کم از کم اس دنیا سے دس گناہ بڑی ہوگی تو اب آپ بتائیے کہ باری تعالیٰ کی ضیافت اس دنیا میں کیسے ہوسکتی ہے؟اس لئے یہ نعمتیں آخرت میں دی جائیں گی،’’مالک یوم الدین‘‘اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس دن تمہارے