موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
اللہ کے نزدیک حمد سے زیادہ کوئی چیز پسندیدہ نہیں ہے،اسی وجہ سےاللہ پاک نے اپنی تعریف کی اور فرمایا ’’الحمدللہ‘‘۔ حضور پاک ﷺ نے’’الحمدللہ‘‘ کہنے کی بڑی تعلیم فرمائی ہے۔ ہر موقع اور ہر حال میں الحمدللہ ہی کہنا چاہئے۔ کئی سال تک حضور ﷺ نے محنت فرمائی، پوری جدوجہد کی، پوری قربانی دی، اسلام کو غالب فرمادیا۔عرب میں اسلام کو غالب کرنا یہ سمجھ سے باہر ہے۔ عرب کے مزاج میں، وہاں کے صفات میں، وہاں کے تمدن میں ایک آدمی کا تنہا محنت کرکے اسلام کو غالب کردینا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔پھر اس کے بعد حضور اکرمﷺ مکہ مکرمہ میں فاتح ہونے کی حیثیت سے داخل ہورہے ہیں تو آپ اپنی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا فرماتے ہوئے داخل ہو رہے ہیں: ’’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ، وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ‘‘۱؎ ’’اس اللہ کے لیے تعریف ہےجو تنہا ہے،جس نےاپنا وعدہ پورا کیا اور تنہا اس نے سارے لشکروں کو شکست دی‘‘۔(ہم نے کچھ نہیں کیا)۔ یہ تو حضور ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا یہ آپ کو سنادیتا ہوں۔ مشہور قول کے موافق سب سے آخر میں اُترنے والی سورت ’’سورۃ النصر‘‘ہے،اللہ پاک نے فرمایا:۲؎ ﴿ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ ، وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِِ اللّٰهِ أَفْوَاجًا، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا ﴾ ’’جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح(حاصل ہوگئی )اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہورہے ہیں، تو آپ اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے اور اس سے مغفرت مانگیئے،بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔ ------------------------------ ۱؎:سنن نسائی: کتاب الشامۃ؍ ذکر الاختلاف علی خالد الحذاء۔۲؎:صحیح مسلم:کتاب التفسیر۔