موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
عباس حضرت سعد ابن ابی وقاص، حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ہیں۔۱؎ ایک اور بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر ہم اُن حدیثوں کی وجہ سے جس میں سورۂ فاتحہ کے عام پڑھنے کا حکم دیا گیا’’اگر ان پر عمل کریں گے تو یہ احادیث جس میں منع کیا گیا ہے چھوڑ دینی پڑیں گی، یوں سمجھئے کہ ہم نے ایک حدیث اختیار کی اور بقیہ حدیثیں چھوڑ دیں۔ لیکن اگر آپ امام کے پیچھے نہیں پڑھتے ہیں تو‘‘جب امام قرأ ت کرے تو خاموش رہو ’’امام کا پڑھنا تمہارا پڑھنا ہے۔‘‘ ان احادیث پربھی عمل ہوا اور جو سورۂ فاتحہ کے پڑھنے سے متعلق احادیث ہیں اگر منفرد ہو تو براہ راست عمل ہوا اور اگر امام کی اقتدا میں ہو تب بھی اُن پر عمل ہوا کیونکہ یہ بھی حکماً پڑھ رہا ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے مسلک میں یہ جامعیت ہے کہ عمل کے اعتبار سے پوری حدیثیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اصل عامل بالحدیث مقلدین ہیں، غیرمقلدین عامل بالحدیث نہیں ہوتے۔ اگر آپ میں سے کوئی ہو تو بُرا ماننے کی بات نہیں، میں نے جو پڑھا ہے وہ آپ لوگوں کو سنارہا ہوں۔ عمل بالحدیث تقلید کرنے والوں کا کام ہے ۔ اہلِ حدیث کا کام عمل بالحدیث نہیں ہے، آپ لوگ یہ اچھی طرح لکھ لیجیے۔ یہ دعویٰ بالدلیل ہے کیونکہ حدیث ایک نہیں ہے۔ بعض مرتبہ پچیس تیس احادیث سامنے رکھنے کے بعد ایک مسئلہ بنتا ہے۔ اب یہ روایتیں آپ لوگ جمع کریں گے تو بہت سی ہوجائیں گی۔ وہ حدیث جس میں مقتدیوں کے لیے امام کے پڑھنے کو کافی بتایا گیا وہ اپنی جگہ اور قرآن پاک کی وہ آیت جس میں قرآن پاک کی تلاوت کی جائے تو سننے کا حکم دیا گیا وہ اپنی جگہ، ان ساری حدیثوں سے یہ مفہوم نکلتا ہے ------------------------------ ۱؎:عمدۃ القاری: باب وجوب القراءة للإمام والمأموم فی الصلوات كلها فی الحضر والسفر۔