موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
’’ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ‘‘۱؎ ’’جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔‘‘ پہلے تو مہمان کا اکرام فرائض میں سے تھا اور پھر حضور ﷺ نے حقِ مہمان مقرر کردیا اور یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی میزبان یہ نہ کرے اور مہمان مجبوری محسوس کرے تو زبردستی اُس کا کھالے۔ آپ ﷺ نے یہاں تک کی اجازت دے دی کیونکہ اس کے بغیر وہ زندہ ہی نہیں رہے گا۔ تو غرض یہ کہ اس بستی پر سے یہ لوگ گزرے۔ وہاں اتفاق سے لوگوں نے میزبانی کرنے سے انکار کردیا کہ ہم اتنے سارے لوگوں کو نہیں کھلاسکتے، ہمارے پاس خود پریشانی ہے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس قبیلے کے سردار کو بچھو یا سانپ نے کاٹ لیا اور وہاں کوئی منتر پڑھنے والا نہیں تھا۔ اس کا خادم دوڑا ہوا آیا اور کہا: ’’فَهَلْ مِنْكُمْ رَاقٍ؟‘‘ ’’تم میں کوئی منتر پڑھنے والاہے؟‘‘ ابوسعید خدری نے فرمایا کہ ہم پڑھ تو دیں گے لیکن تم نے ہماری ضیافت سے انکار کردیا لہٰذا ہم اس وقت تک نہیں پڑھیں گے جب تک کہ تم ہمارے لئے کچھ طے نہ کردو،وہ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے ہم آپ لوگوں کو اتنی بکریاں دے دیں گے۔ ابوسعید خدری نے سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کی تو اُس کا پورا زہر اُتر گیا۔ سب صحابہ معلوم کرنے لگے کہ آپ کو کون سا عمل کیا؟ فرمانے لگے کہ مجھے کون سا عمل آتا ہے؟ میں نے تو سورۂ فاتحہ پڑھا اور دَم کردیا ، اللہ پاک نے اس سے شفا دے دی۔اب جب ان لوگوں کو کھانا مل گیا تو مسئلہ یہ تھا کہ اس کو کھائیں یا نہ کھائیں؟ پھر وہ بکریاں لے کر آپﷺ ------------------------------ ۱؎:صحیح البخاری: الأدب؍ باب من کان یومن باللہ والیوم الاخر…۔