معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
سب خاک ہوجاتے ہیں۔ یہ شراب و کباب اور شکر دراصل خاک ہی سے ہیں مگر خاک کو رنگین کردیاہے اے لڑکے! -------------حکایت پیر چنگی خلافتِ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص خوش الحان چنگ بجایا کرتاتھا۔ اس کی آواز پر مرد،عورت اور بچے سب قربان تھے۔اگر کبھی مست ہوکر گاتاہوا جنگل سے گزرجاتا تو چرند پرند اس کی آوازسننے کے لیے جمع ہوجاتے۔رفتہ رفتہ جب یہ بوڑھا ہوا اور آواز پیری کے سبببھدّی ہوگئی تو عشّاقِ آوازبھی رفتہ رفتہ کنارہ کش ہوگئے۔ اب جدھر سے گزرتاہے کوئی پوچھنے والانہیں۔ نام وشہرت سب رخصت ہوگئے اور ویرانۂ گمنامی میں مثلِ بوم ٹکرانے لگا اور فاقوں پر فاقے گزرنے لگے۔ خلق کی اس خود غرضی کو سوچ کر ایک دن بہت مغموم ہوا اور دل میں کہنے لگاکہ اے خدا! جب میں خوش آواز تھاتو مخلوق مجھ پر پروانہ وار گرتی تھی اور ہر طرف میری خاطر تواضع ہوتی تھی۔ اب بڑھاپے سے آواز خراب ہوگئی تو یہ ہوا پرست اور خود غرض لوگ میرے سایہ سے بھی گریزاں ہوگئے۔ ہائے ایسی بے وفا مخلوق سے میں نے دل لگایا۔ یہ تعلق کس درجہ پُر فریب تھا۔ کاش! میں آپ کی طرف رجوع ہوا ہوتا اور اپنے شب وروز آپ ہی کی یاد میں گزارتااور آپ ہی سے امیدیں رکھتا تو آج یہ دن نہ دیکھتا۔ پیر چنگی دل ہی دل میں نادم ہورہاتھااور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ اچانک جذبِ غیبی نے اس کے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا ؎ جو گرے ادھر زمیں پر مرے اشک کے ستارے تو چمک اُٹھا فلک پر مری بندگی کا تارا (اخترؔ) پیر چنگی نے ایک آہ کھینچی اور خلق سے منہ موڑ کر دیوانہ وار مدینہ منوّرہ کے قبرستان کی