معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نارِ تقویٰ سے تو اچھا ہے نیازِ رندی جاہِ زاہد سے تو اچھی مری رسوائی ہے دین پر استقامت کی ہر وقت حق تعالیٰ سے یوں دعاکرتارہے کہ اے میرے رب! ایک لمحے کو بھی مجھے میرے نفس کے سپرد نہ فرمائیے اور میری ہرحالت کو اپنی مرضی کے موافق درست فرماتے رہیے یہاں تک کہ میرا خاتمہ ایمان پر فرمادیجیے۔ آمین ثم آمین -------حکایتِ حضرت بلال چمن کا رنگ گو تونے سراسر اے خزاں بدلا نہ ہم نے شاخِ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا (مجذوبؒ) دعویٰ مرغابی کردہ است جاں کے ز طوفانِ بلا دارد فغاں؟ (رومیؒ ) جان نے مرغابی ہونے کا جب دعویٰ کرلیا تو پھر طوفانِ بلا سے اس کو کب فغاں ہے؟ یعنی عاشقِ حق ہونے کا دعویٰ جب کرلیا توپھر اب ؎ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبش کے رہنے والے تھے اور امیّہ بن خلف نام کے ایک یہودی کے غلام تھے۔ فضلِ الٰہی سے جب ان کو ایمان نصیب ہوا تو اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا۔ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو چین سے دیکھنا نہ چاہتے تھے۔ اللہ کے نور کو بجھانے کے