معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حق تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے عبادت کی نیت کرکے عبادت شروع کی جاوے اور پھر بھی وسوسۂ ریاآوے تویہ ریانہیں صرف وسوسۂ ریا ہے۔ جس طرح مکھی آئینے کے اوپر ہوتی ہے مگر اندر معلوم ہوتی ہے اسی طرح یہاں قلب میں اخلاص ہے مگر قلب کے باہر وسوسۂ ریاپریشان کرتاہے اور وہ اندر معلوم ہوتاہے۔ حالاں کہ اندر نہیں اس لیے سالک کوپریشان نہ ہونا چاہیے اور نہ خوفِ ریا سے معمولات کوترک کرناچاہیے۔ حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس طرح مخلوق کودکھانے کے لیے عبادت کرناریاہے اسی طرح مخلوق کے سامنے خوفِ ریاسے عبادت کاترک کرنا بھی ریاہے۔ پس ہرحال میں ذکرومعمولات کی پابندی کرنی چاہیے خواہ خلوت ہویااحباب کی معیت سے جلوت ہو۔ البتہ احتیاطاً استغفار ضرور کرتے رہنا چاہیے۔شہوت مارِ شہوت را بکش در ابتدا ورنہ اینک گشت مارت اژدہا خواہش کے سانپ کوابتداہی سے ماردینا چاہیے ورنہ اگردیر کروگے تویہ بڑھتے بڑھتے اژدہاہوکر تمہارے قابوسے باہر ہوجاوے گا۔ آفتِ دیں در ہوا و شہوت ست ورنہ اینجا شربت اند شربت ست دین کی آفت خواہشاتِ نفسانیہ ہیں اگر ان کی اصلاح کرالی جاوے توپھردین کی راہ نہایت پُرلطف اور لذیذ راہ ہے۔ نارِ شہوت می نیار امد بآب زانکہ دار د طبعِ دوزخ در عذاب شہوت اور خواہشِ نفسانی کی آگ کودنیا کاپانی نہیں بجھاسکتا کیوں کہ اس کی خاصیت عذاب دینے میں دوزخ کی طرح ہے۔