معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دربیانِ حصولِ استقامت (استقامت کے حصول کا بیان) استقامت گر ہمی داری عزیز رو رو اے جاں زود کن ذکرِ عزیز اگر تو اے سالک! استقامت چاہتاہے تو جا اور ذکر کا اہتمام کر، ناغہ مت کر۔ اُثْبُتُوْا را عون باشد اُذْکُرُوْا بہرِ ایں قرآں بگوید اذکروا ثبات قدمی کا امر جو اُثْبُتُوْا میں مذکور ہے اس کی تدبیر بھی اسی کے بعد اُذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا مذکور ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ثبات قدمی کا سہل طریقہ بتادیا کہ کثرتِ ذکر اللہ ہی سے استقامت عطا ہوگی ۔ نوٹ:اور کثرتِ ذکر کو خود تجویز نہ کرو بلکہ مرشد سے تجویز کرالو ورنہ اتنا زیادہ کروگے کہ پاگل ہوجاؤگے کیوں کہ انسان فطرۃً حریص ہے۔ ہرکہ ذاکر نیست کے ثابت شود ہر کہ غافل ہست کے قانت شود جو ذکر کا پابند نہیں ہ ثابت قدم بھی نہیں ہوگا اور گناہوں سے بچنا اس کو بہت مشکل ہوجاوے گا، جو غافل ہوتاہے وہ قربِ خاص سے محروم ہوتاہے۔ ہست کو غافل ز ذکرِ آں شہے نیست او را ا ستقامت یکدمے جو شخص حق تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوتاہے اس کو ایک سانس بھی استقامت حاصل نہیں۔ استقامت گر ہمی خواہی برو ذکر کن در راہِ گمراہی مرو استقامت اگر چاہتے ہو تو جاؤ اور ذکر کرو اور گمراہی میں نہ پڑو۔