معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دربیانِ قبضِ باطنی و غمِ فراق آفتابت گر بگردا ند ر خے در قمر آید خسو فے آں دمے اے خدا! آپ کا آفتابِ کرم اگر ہمارے قلب کے محاذات سے رُخ پھیرلے تو اسی وقت ہمارے دل کا نور تاریکی سے تبدیل ہوجاوے ( جس طرح قمر میں گرہن لگ جاتاہے اور اس کا سبب بھی یہی بیان کیا جاتاہے کہ چاند کا نور آفتاب ہی کے نور سے مستفاد ہوتاہے پس آفتاب اور چاند کے درمیان جب زمین حائل ہوتی ہے تو چاند بے نور ہوجاتاہے ) بدرِ جانم بے تو باشد چو ہلال می گریز د نو رِ ا و سوئے زوال اے خدا! میری جان کا بدرِ کامل آپ کے بغیر مثلِ ہلال ہوجاتاہے اور اس کا نور ہروقت زوال کی طرف تیزی سے بھاگتاہے۔ آفتابم در افق مستور شد روزِ ما زیں غم شبِ دیجور شد میرا آفتابِ قرب افق میں بحالتِ قبضِ باطنی مستور ہوگیا اور اس غم کے سبب ہمارا روزِ روشن تاریک شب سے تبدیل ہوگیا۔ ہرکہ باشد دور از دلدارِ خویش تلخ یابد زیست زیں آزارِ خویش جو شخص اپنے محبوب سے دور ہوجاتاہے وہ اس غمِ فراق سے اپنی زندگی تلخ محسوس کرتاہے۔ با تو من اندر فلک خوشتر روم بے تو اندر خانۂ خود گمرہم اے خدا!آپ کی معیتِ خاصہ کے فیض سے ہم بالائے فلک سیر کررہے تھے باعتبارِ