معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تخلیقِ عالم شد جہاں آئینۂ رخسارِ دوست ہر دو عالم در حقیقت عکسِ اوست یہ کائنات صفاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے اور دونوں جہاں عکسِ جمالِ دوست ہیں۔ یافت از نورش جماد افتادگی کرد از مہرش نبات استادگی حق تعالیٰ شانہٗ کے نورِ پاک سے جمادات نے نشانِ افتادگی پائی ہے کہ جہاں ڈال دیے گئے وہیں پڑے ہیں تسلیم ورضا کے ساتھ اور ان ہی کی عنایت سے نباتات نے اگنا اور اگ کر کھڑا ہونا سیکھا ہے۔ جنبشِ کفہا ز دریا روز و شب کف ہمی بینی نہ دریا اے عجب دریامیں جھاگ کی حرکت تو نظر آتی ہے مگر جو امواج اس جھاگ کی حرکت کا اصل سبب ہیں وہ جھاگ کے نیچے روپوش ہیں۔ گر د و چشمِ حق شناس آمد ترا دوست پر بیں عرصۂ ہر دوسرا اے مخاطب! اگر تیری دونوں آنکھیں حق شناس یعنی دولتِ عرفانِ حق سے مشرف ہوجائیں تو تجھے سارا جہاں دوست کی نشانیوں سے پُر معلوم ہو۔عالمِ امر بے جہت داں عالمِ امر و صفات عالمِ خلق است حسہا و جہات