معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حدِّ خود بشناس و در بالا مپر تا نیفتی در نشیبِ شور و شر اپنی حقیقت(ناپاک نطفہ) کوپہچانواور تکبر وبڑائی کی راہ پرمت چلوتاکہ شوروشرکے گڑھے میں نہ گرجاؤ۔ خود چہ باشد پیشِ نورِ مستقر کرّوفرِّ افتخارِ بو البشر حق تعالیٰ شانہٗ کے نورِ مطلق دائم وقائم کے سامنے انسان کے فخر کاکرّوفر کیا حقیقت رکھتاہے۔ریا و نفاق خواجہ پندارد کہ طاعت می کند بے خبر کز معصیت جاں می کند ریاکار سمجھتاہے کہ میں عبادت میں مشغول ہوں اس بے خبر کو یہ نہیں معلوم کہ ریاکے جرم سے اپنی جان کوعذاب کی راہ پرلے جارہاہے۔ گر بصورت آدمی انساں بُدے احمد و بوجہل ہم یکساں شدے ریاوالی عبادت کی صورت توعبادت کی ہے مگر اس عبادت میں روح نہیں ہے جس طرح آدمی صرف صورت سے آدمی نہیں ہوتا۔ ایک انسانی صورت کفر میں مبتلا ہوکرذلیل وخوار ہے، دوسری صورتِ انسانی اپنی حقیقت کے سبب یعنی تاجِ نبوت سے امام الانبیاء ہے۔ فائدہ: اکثرعبادت میں سالک کوشبہ ہوتاہے کہ میں دکھاواکررہاہوں اور خویش و اقارب اور احباب کے سامنے خوفِ ریا سے ذکر ومعمولات کو ملتوی کردیتاہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ ریا ایسی بیماری نہیں ہے کہ بدون قصد آکر ہم سے لپٹ جائے۔ ریا سے بچنے کے لیے یہی کافی ہے کہ ریاکاارادہ نہ کرے یعنی مخلوق کودکھانے کا ارادہ نہ کرے اور اگر