معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
قصّہ ایک عاشق نقاب پوش بزرگ کا یہ نقاب پوش بزرگ زمانۂ جاہلیت میں کسی خطۂ عرب کے بادشاہ تھے۔ یہ پہلے عشقِ مجاز میں مبتلاتھے اور بہت اچھے شاعر تھے۔ حکومت اور ملک کے حریص، نازک طبع اور صاحبِ جمال۔جب عشقِ حقیقی نے ان کے دل پر اثر کیاتو حکومت وسلطنت تلخ معلوم ہونے لگی۔ ولنعم ماقال صاحب قصیدۃ البردۃ: نَعَمْ سَرٰی طَیْفُ مَنْ اَھْوٰی فَاَرَّقَنِیْ وَ الْحُبُّ یَعْتَرِضُ اللَّذَّاتِ بِالْاَلَمِ ہاں مجھے جب رات کو اپنے محبوب کا خیال آگیاتورات بھر نیند نہیں آئی اور بات یہ ہے کہ محبت تمام لذتوں کو رنج وغم سے تبدیل کردیتی ہے ۔ بالآخر بادشاہ آدھی رات کو اٹھا، گدڑی اوڑھی اور اپنی سلطنت سے باہرنکل گیا ۔ دل میں عشقِ الٰہی کی آگ پیدا ہوچکی تھی، سلطنت کا شور وغل محبوب کییادسے مانع ہورہاتھا۔آخر کار پیمانۂ صبر چھلک گیا، ایک چیخ ماری اور دیوانہ وار صحرا کی طرف چل دیا ؎ مارا جو ایک ہاتھ گریباں نہیں رہا کھینچی جو ایک آہ تو زنداں نہیں رہا اس عاشق کی سچی آہ نے اسے سلطنت کے آہنی قید وبند سے آزاد کردیا۔ اس راہ کا کام ابتداء ً جذب ہی سے بنتاہے۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دست در دیوانگی باید زدن زیں خرد جاہل ہمی باید شدن دیوانگی کی نعمت یعنی عشقِ حق دل میں پیداکرو۔ محض خرد سے حق تک رسائی نہ ہوگی بلکہ جو عقل نورِ وحی سے منوّر نہ ہو اس سے تو جاہل ہی رہنا بہتر ہے۔ یہ عشق کا خاصہ ہے کہ عاشق کو خلوت میں بیٹھ کراپنے محبوب کی یادلذیذمعلوم ہوتی ہے۔ پس صحرا کا سکوت عاشقین صادقین کو بھلا معلوم ہوتاہے۔ حضورصلّی اللہ علیہ وسلم