معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عالم کی دو قسمیں ہیں: عالمِ امر، عالمِ خلق۔عالمِ امر وصفات جہات و حسیات سے معریٰ ہے اور عالمِ خلق عالمِ جہات اور عالمِ محسوسات ہے۔ غیب را ابرے و بادے دیگر ست آسماں و آفتابے دیگر ست عالمِ غیب کے ابروباد دنیا کے ابروبادسے الگ ہیں اور وہاں کے آسمان اور آفتاب بھی الگ ہیں۔ ہست بارانہا جزیں باراں بداں می نہ بیند ایں دو را جز چشمِ جاں عالمِ غیب کی بارش اس عالم کی بارش سے مختلف ہے مگر ان تمام امورِ مذکورہ کا انکشاف صرف ان ہی کوہوتاہے جن کی ارواح تعلق مع اللہ(معیتِ خاصہ) کی دولت سے نورِ خاص پاچکی ہیں، ان ظاہری آنکھوں سے اس عالم کا ادراک ناممکن ہے بصیرۃِ قلب کی ضرورت ہے جس کے حصول کا ذریعہ کسی بزرگِ کامل کی صحبت ہے۔تخلیقِ انسان و مرتبۂ آں وغرض ازاں وجہ آدم آئینہ اسما کند عکسِ خود در صورتش پیدا کند وجہ آدم علیہ السلام کو اپنے اسماء کا آئینہ بنایا یعنی اپنی جملہ صفات کا سیدنا آدم علیہ السلام کو مظہر بنایا ؎ جملہ عالم ہست حاجتمندِ تو تو گدایا نہ چہ گردی کو بکو تمام کائنات کو انسان کی خدمت کے لیے خلق فرمایا ہے پس اے انسان! تو جب پوری کائنات کا مخدوم ہے توکائنات کا اپنے کو محتاج مت سمجھ اور گلی در گلی رسوا مت پھربلکہ