معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نہ کبھی تھے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ شوقِ شراب ہے لبِ یار چوسے تھے خواب میں وہی ذوقِ مستی خواب ہے حتی کہ ذکر کی لذت ذاکر کوراہِ حق میں اپنی جان دینا بھی آسان کردیتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ھٰکذا مردِ مجاہد ناں دہد چوں بروز د نورِ طاعت جاں دہد یعنی بندہ پہلے نان سے پیداشدہ قوتوں کواللہ کی نافرمانیوں میں خرچ کرنے کے بجائے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کے راستے میں خرچ کرنے کی مشقت کرتاہے،نان سے پیدا شدہ قوتیں جب اس نے اللہ کے راستے میں دیں توگویااس نے روٹی ہی اللہ کے راستے میں دے دی۔ اس مسلسل مجاہدے سے انوارِذکر و طاعت میں اضافہ ہوتارہتاہے حتی کہ یہ انوارجب اس پر پورااثر کردیتے ہیں توغلبۂ محبت میں مردِ مجاہد اپنی جان بھی اللہ کے راستے میں قربان کردیتاہے۔ ان تین اشعارِ مثنوی کواحقر کی اردومثنوی میں ملاحظہ فرمائیے ؎ یادِ حق سرمایۂ ایمان ہے یادِ حق سے ہر گدا سلطان ہے یادِ حق ہی ہے غذا اس روح کی اور مرہم ہے دلِ مجروح کی ہے زباں پر ان کا نامِ ذو الجلال شہد کی نہریں ہیں میرے بال بالپروازِ روحِ عارف مع اتصالِ جسدِ خاکی بسوئے محبوبِ حقیقی جاں مجرد گشتہ از غوغائے تن می پرد با پرِّ دل بے پائے تن