معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حکایتِ زاہدے کو ہی ایک درویش پہاڑ کی گھاٹی میں گیااور حق تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں تمام علائقِ دنیویہ سے رخ پھیر کر اب آپ کی عبادت میں یہاں مقیم رہوں گااوربھوک سے جب تنگ حال ہوں گاتوآپ ہی کی طرف سے عطا کا منتظر رہوں گا۔ خود نہ کسی مخلوق سے سوال کروں گانہ اس کوہ و بیابان کے درختوں سے کوئی پھل یا پتّہ توڑکر کھاؤں گا۔ البتہ جو پھل خود بہ خود ہوا سے زمین پر گریں گے صرف ان کو کھاکر زندگی بسر کروں گا۔ ایک مدت تک یہ فقیراپنے عہد پر قائم رہا۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ کی طرف سے امتحانات شروع ہوگئے اور اس امتحان کی وجہ یہ تھی کہ اس فقیر نے استثنا نہ کیا تھا یعنی یہ نہ کہا تھا کہ ان شاء اللہ میں اس عہد پر قائم رہوں گا۔ اس ترکِ ان شاء اللہ سے چوں کہ اس درویش کا دعویٰ و تکبر اور اپنی قوت و ہمت پر ناز صادر ہوا اس لیے اس کی شامتِ عمل نے اسے سخت امتحان میں گھیرلیا اور اس کے قلب سے وہ نور جاتارہا جس کی وجہ سے اس کے قلب میں بھوک کی تکلیف برداشت کرنے کی قوت وہمت اچانک بالکلیہ مفقودہوگئی۔ ادھر حق تعالیٰ نے ہوا کو حکم فرمایاکہ اس وادیٔ کوہ کی طرف ہوکر نہ گزرے۔ چناں چہ پانچ روز تک ہوا مطلقاً بند ہوجانے سے درخت سے کوئی پھل زمین پر نہ گرا۔ پس بھوک کی شدت سے وہ درویش بے چین ہوگیا۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور ضعف و نقاہت نے اس کو خود اپنے عہد کی بے وفائی پر مجبورکردیا اور وہ درویش کوہِ استقامت سے چاہِ ضلالت میں آگرا۔ جب اپنا عہد ونذر فسخ کرکے وہ درختوں سے پھل توڑکرکھانے لگا تو غیرتِ حق کو جوش آگیا اور اس فقیر کو سزادی گئی کیوں کہ امرِ الٰہی وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ؎ہے۔ ( ترجمہ : پورا کروجوکچھ کہ تم نے عہد کیاہے۔) اب اس فقیر کی سزا کا قصہ سنیے کہ چوروں کا ایک گروہ رات کو اس پہاڑ کے دامن میں ٹھہرگیا۔ ایک مخبر نے کوتوالِ شہر کو اطلاع دی کہ آج چوروں کا گروہ فلاں ------------------------------