معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ میں تو نام و نشاں مٹا بیٹھا میرا شہرہ اڑادیا کس نے بہر حال حتی الامکان بہت سادگی اور خود کو مٹاکررکھنے ہی میں عافیت ہے۔ جیسا کہ ہمارے اکابرنے اپنے کو بالکل سادہ اور مٹاکر رکھاہے۔ میں نے اپنے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے سناہے کہ ایک دفعہ حضرت مولانامحمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانئ دیوبند لنگی باندھے سادے لباس میں کہیں سے گزر رہے تھے ، ایک شخص نے مولانا کی سادگیٔ لباس سے جولاہا سمجھ کر پوچھا کہ بازارمیں آج سوت کا کیا بھاؤ ہے؟ مولانا نے جواب دیا:آج میرا بازار جانانہیں ہوا۔یہ نہیں فرمایاکہ کیا میں جولاہا ہوں کہ اس سے اہانت جولاہوں کی مترشح ہوتی اور عزت کا معیار عنداللہ صرف تقویٰ ہے۔حکایتِ حضرت انس بن مالک واقعہ ہے کہ ایک بار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں چند مہمان آئے، بعد ضیافت دسترخوان زرد فام ہوگیا۔ دستر خوان میں شوربالگ جانے کے بعداس کی صفائی کے لیے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خادمہ کو حکم دیاکہ اس کو جلتے ہوئے تنور میں ڈال دو۔ خادمہ نے حسبِ حکم ایساہی کیا، جملہ مہمانوں کو حیرت ہوئی اور دسترخوان کے جلنے اور اس سے دھواں اٹھنے کا انتظارہونے لگا ۔ لیکن اس کو جب تنور سے نکالا تو بالکل محفوظ تھا اور صاف ہوگیاتھا۔ قوم گفتند اے صحابیٔ عزیز چوں نسوزید و منقّٰی گشت نیز قوم نے کہا: اے صحابی!یہ دسترخوان آگ میں کیوں نہ جلا اوربجائے جلنے کے اورصاف وستھرا ہوگیا۔