معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
محبوب کی نظر میں کس قدر منافق فی المحبت اور محروم سمجھاجاوے گا، اسی طرح سالکین اور طالبینِ حق کو سوچنا چاہیے کہ مولائے حقیقی ہروقت اپنے بندوں پر ہزارہاالطاف وکرم سے متوجہ ہیں اور بندہ اگر بے وقوفی سے بجائے حق تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف متوجہ ہونے کے اپنی ہی مستعار صفات میں مشغول ہے تو یہ لمحات اس کے لیے نفاق فی المحبت اور فراق و محرومی کے ہوں گے یا نہیں؟ خود ہی فیصلہ کرلو۔ اوراس بیماری کی اہمیت اور اس کے ضرر کا اندازہ لگالو۔ الحمدللہ! کہ اس مثال سے عجب اور کبر کی مضرت بہت ہی واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے اور عاشقوں کے لیے یہ مثال تازیانۂ عبرت ہے۔ اے اللہ!ہم سب کو عجب وکبر اور جملہ مہلکاتِ طریق سے محفوظ فرما۔آمین حق تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت شیخ کی جوتیوں کے صدقے میں یہ مثالیں اور علوم عطاہورہے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلہِ وَالشُّکْرُ لَکَ یَارَبَّنَا۔ اے اللہ! توفیقِ عمل عطافرما۔ یَاغَیَّاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ اھْدِنَا لَا افْتِخَارَ بِالْعُلُوْمِ وَالْغِنَاحکایتِ جبری جو خیر وشر میں خود کومجبور سمجھتاتھا ایک شخص بد عقیدہ کہتاتھا کہ بندہ مجبورِ محض ہے اور ذاتی طور پر اس کو کچھ اختیار نہیں۔ اس لیے خیروشرکی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں ۔ ایک دن یہ ملعون ایک باغ میں پہنچا اور مالکِ باغ کی اجازت کے بغیر خوب پھل توڑکر کھائے ۔ مالک نے کہا:او چور کمینے!یہ کیا کررہاہے؟اس نے کہا: گفت از باغِ خدا بندہ خدا گر خورد خرما کہ حق کردش عطا یہ باغ خدا کا ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں اور عطائے حق سے کھاتاہوں توکیاگناہ ہے۔ مالک نے پہلے اس کو درخت پر رسی سے باندھا اور ایک موٹا مضبوط ڈنڈا اس