معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِمسائل واصطلاحاتِ تصوّف ذات وصفاتِ باری تعالیٰ ہرچہ اندیشی پذیرائے فناست واں کہ در اندیشہ ناید آں خداست انسان مخلوق ہے اور اس کے اندر جو افکار پیداہوتے ہیں وہ بھی مخلوق ہیں۔ پس اے مخاطب! تو اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھنے کے لیے جو کچھ فکرکرے گا وہ فکربھی مخلوق ہوگی اور فانی ہوگی اور خوب جان لے کہ تیرے احاطۂ فکر میں خدا کی ذات نہیں آسکتی۔ کیوں کہ اس سے لامحدود کا محدود میں آجانا لازم آتاہے اور یہ محال ہے۔ اسی لیے حدیث شریف میں ذاتِ حق میں فکر وخوض کو ممنوع قراردیاگیا(کیوں کہ امرِ محال کے پیچھے پڑنا تھا)اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے ان کی مخلوقات میں فکر و غور کرو ۔ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ؎ فرمایا ہے، فی اللہ نہیں فرمایا۔ پس قرآن سے بھی یہ مدلول ثابت ہوگیاکہ تفکر فی خلق اللہ مفید ہے۔ بس نہا ینہا بضد پیدا شود چوں کہ حق را نیست ضد پنہاں بود بہت سے مخفی اموراپنی ضد سے ظاہر ہوگئے جیساکہ یہ قاعدہ مشہورہ مسلّمہ ہے کہ ------------------------------