معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
آدمی مخفی ست در زیرِ زباں ایں زباں پردہ ست بر درگاہِ جاں آدمی پوشیدہ ہوتاہے جب تک گفتگو نہیں کرتا۔یہ زبان باطن کے لیے پردہ ہے جب زبان کھلی پردہ کھلااورباطن اچھا یا برا بے پردہ ہوا ۔اخلاقِ حسنہ و رعد و باشد ہمیں احساں نکوست کہ باحساں بس عدو گشتست دوست دشمن کے ساتھ احسان ہی کرنے میں خیر ہے کیوں کہ بہت سے دشمن احسان سے دوست ہوگئے۔ ورنہ گردد دوست کینش کم شود زانکہ احساں کینہ را مرہم شود اور بوجہ خباثتِ طبع وہ دشمن اگر دوست نہ ہوسکے گاتواس کاکینہ ہی کم ہوجاوے گا اس واسطے کہ احسان کینے کا زخم اچھا کرنے کے لیے مرہم کاکام کرتاہے۔ ور بود صورت حقیر و نا پذیر چوں بود خلقش نکو در پاش میر اور اگر کسی کی صورت مکروہ اور حقیر معلوم ہولیکن اگر اس کے اخلاق اچھے ہیں تو اسی کے پاس مرنایعنی تادمِ آخر اس کی صحبت کو لازم کرلو۔ صورتش دیدی ز معنیٰ غافلی از صدف دُر را گزیں گر عاقلی اس کی صورت کو تونے دیکھااور سیرت سے تغافل برتا تجھے تو سیپ کے خول سے موتی کی تلاش مناسب ہوتی اگر تو عاقل ہوتا۔