معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
قرب نے بالا و پستی رفتن ست قربِ حق از قیدِ ہستی رستن است قرب اوپرنیچے چلنے کامفہوم نہیں ہے بلکہ قربِ حق اپنے نفس کی قید سے آزاد ہوناہے۔ آنکہ شد انسش بشاہِ فردِ خویش یافت در مانہائے جملہ دردِ خویش جوشخص کہ اپنے شاہِ حقیقی سے اپنے قلب و روح کو مانوس کرلے تو وہ حق تعالیٰ کے پاس اپنے ہردرد کی دواپائے گا۔ چوں ازاں اقبالِ شیریں شد دہاں سرد شد بر آدمی ملکِ جہاں جب حق تعالیٰ کی محبت کا لطف مل جاتاہے تو پھر اس جہان کی سلطنت بھی اسے سرد معلوم ہوتی ہے۔تسلیم و رضا بالقضاوتوکل اسے بھی آپ کی مرضی پہ سونپتاہوں میں دیاہے آپ نے جو کچھ بھی اختیار مجھے (احسنؔ) شرط تسلیم ست نے کارِ دراز سود نبود در ضلالت تر کتاز حق تعالیٰ کی راہ میں تسلیم و تفویض شرط ہے نہ کہ کارِ دراز۔ غلط سمت کو کتنی ہی دوڑ دھوپ اور مشقت اٹھائی جاوے مگر کچھ فائدہ نہیں بجز دوری کے۔ ہمچو اسماعیل پیشش سر بنہ شاد و خنداں پیشِ تیغش سر بنہ