معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دربیانِ حدیثِ زُرْغِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا گرچہ در خشکی ہزاراں رنگہا ست ماہیاں را با یبوست جنگہا ست دائم اندر آب کارِ ماہی ست مار را با او کجا ہمراہی ست اگر مچھلیوں کے کان میں کوئی کہے کہ خشکی میں چلو تم کو خشکی میں دلکش نقش و نگار اور مختلف رنگ و بہار کالطف ملے گا تو مچھلیاں جواب دیں گی کہ اگر خشکی میں ہزاروں رنگ اور بہاریں ہوں لیکن ہمارے لیے خشکی کا ہر پیغامِ عیش پیغامِ موت کے مترادف ہے۔ ہمیں تو پانی ہی کے اندر ہر قسم کا عیش محسوس ہوتاہے، تمام کائنات کی نعمتیں ہم کو پانی ہی میں نظر آتی ہیں۔ پانی ہی ہماری خوابگاہ ہے ،پانی ہی ہمارا کسب و معاش گاہ ہے ،پانی ہی میں ہماری زندگی کی تمام ضروریات کا حل موجود ہے۔ برعکس خشکی تمام نعمتوں اور بہاروں کے باوجود ہماری ہلاکت ہے۔ یہی حال اللہ والوں کی روحوں کا ہے کہ ان کو حق تعالیٰ شانہٗ کے ساتھ ایسا انس ہوتاہے کہ ان کو میاں ہی کی یاد میں تمام کائنات کی لذتیں محسوس ہوتی ہیں ؎ بسودائے جاناں ز جاں مشتغل بذکرِ حبیب از جہاں مشتغل محبوبِ حقیقی کی محبت میں اپنی جان سے بھی بے پروا رہتے ہیں کیوں کہ جب جان کی جان سے رابطہ ہو تو پھر یہ جان بھی بمنزلہ جسم کے بے قدر ہوجاتی ہے ؎ متاعِ جانِ جاناں جان دینے پر بھی سستی ہے اور میاں ہی کی یاد میں ایسے دیوانے ہورہے ہیں کہ تمام جہاں سے بے پروا ہورہے ہیں ؎ خلقے پسِ دیوانہ و دیوانہ بکارے ہمیشہ پانی ہی میں رہنا یہ مچھلیوں ہی کا کام ہے لیکن کبھی کبھی سانپ بھی پانی میں داخل