معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہردم ہے ایک بارشِ انوار قلب پر ہر وقت ہے تصورِ جانانہ آج کل جاذب ہزار حسن ہو اٹھتی نہیں نظر مجذوب ہرحسیں سے ہے بیگانہ آج کل ہٹتا نہیں خیال کسی دم حبیب کا وہ مست ہوں میں نغمۂ اِنّی قریب کا مجذوب خستہ حال سمجھتے ہیں سب جسے کیا جانے حال خوش کوئی اس خوش نصیب کا اب اور ہی کچھ ہے مرے دن رات کا عالم ہروقت ہے اک ان سے مناجات کا عالم اب دل میں شب و روز جو ہے ان کا تصور فرقت میں بھی رہتا ہے ملاقات کا عالمقصّہ انجامِ وعدۂ فردا ایک شخص نے ایک کانٹے دار درخت لوگوں کی رہ گزرپرلگایا۔ جس قدر یہ درخت بڑھتاگیا مخلوق کے پاؤں اس کے کانٹوں کے زخم سے پُرخون ہونے لگے۔ ہردمے آں خاربن افزوں شدے پائے خلق از زخمِ او پُر خوں شدے خلق نے اس کو ملامت کی لیکن اس پرکچھ اثر نہ ہوا سوائے اس کے کہ وعدہ کرلیاکرتاکہ کل اس کواکھاڑدیں گے۔ حتیٰ کہ اس فعلِ خبیث سے حاکمِ وقت کو اطلاع ہوئی۔ چوں کہ حاکم را خبر شد زیں حدیث یافت آگا ہی ز فعلِ آں خبیث