معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بظاہر اسباب کے پیشِ نظر وہ ناقابلِ حال نظر آتی ہیں۔ عنصرت را حسنِ آب و گل کشد روحِ تو از جذبِ ایشاں می تپد اے سالک! تیرے نفس کے تقاضے حسنِ مجازی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور تیری روح اس کش مکش سے کس قدر تڑپتی ہے۔ چوں کمندِ جذبِ حق جاں را رسد ایں غم و آلام را برہم زند پھر جب حق تعالیٰ کی رحمت تیری جان کو اپنی طرف جذب کرتی ہے تو ان مجاہدات کے تمام غم و آلام درہم برہم ہوجاتے ہیں۔ ساعتے کہ روح را غفلت رسد نفسِ امارہ سوئے ظلمت بَرَد جس وقت روح خدا سے غافل ہوتی ہے اسی وقت نفسِ امارہ تاریکی کی طرف لے جاتاہے۔ گر بُوَد حاصل ترا قربِ مدام کے کشیدت نفسِ امارہ بدام اے سالک! اگر تجھے حق تعالیٰ کا قربِ دائمی حاصل رہے تو نفسِ امارہ تجھے اپنے جال میں نہیں کھینچ سکتا۔دربیانِ رحمتِ الٰہیہ مدتے اندر بلا در ماندۂ ناؤ خود در بحرِ طوفاں زاندۂ اے مخاطب! تو ایک مدت بلا اور آزمایش میں رہاہے اور تو نے اپنی کشتی کو طوفان کے سمندر (مجاہداتِ شاقّہ) میں چلایاہے۔