معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کے بعدمولانا نے اپنے مریدین میں سےحسام الدین چلپی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا ہمدم وہمراز بنالیااورپھر جب تک زندہ رہے اُن سےاپنے دل کو تسلی دیتے رہے،مولانا روم حسام الدین کا اس طرح ادب کرتے تھے کہ لوگ ان کو مولانا کا پیر سمجھتے تھے۔ ان ہی مولاناحسام الدین کی ترغیب پر مولانا روم نے اپنی مشہور مثنوی شریف لکھی۔مولانا کی علالت اور وفات ۶۷۲ھ میں قونیہ میں بڑے زور کا زلزلہ آیااور چالیس دن تک اُس کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ زمین بھوکی ہے، لقمۂ ترچاہتی ہے۔ چند ہی روز کے بعدمولانا علیل ہوئے،اکمل الدین اورغضنفراطبّائے حاذق نے علاج کیا، لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ۵جمادی الثانی بروز یک شنبہ ۶۷۲ھ بوقتِ غروبِ آفتاب مولانا نے وفات فرمائی اور یہ آفتابِ علم وفضل غروب ہوگیا۔ رات کوسامان کیا گیااور صبح کو جنازہ اٹھا۔ بادشاہ سے لے کر فقیر وغریب تک سب ہمراہ تھے۔ لوگوں نے تابوت تک توڑکر تبرّکًاتقسیم کرلیے، شام کو جنازہ قبرستان تک پہنچ سکا۔ شیخ صدرالدین شاگردِ شیخ اکبرمحی الدین رحمۃ اللہ علیہ مع اپنے مریدین کے ہمراہ تھے،شیخ صدرالدین جنازے کی نماز پڑھانے کھڑے ہوئے لیکن چیخ مارکر بے ہوش ہوگئے،پھر قاضی سراج الدین نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ مولانا کی وصیت کے مطابق حضرت حسام الدین چلپی مولانا کے خلیفہ بنائے گئے۔ مولانا نے دوفرزند چھوڑے: ایک علاء الدین محمد دوسرے سلطان ولہ۔ حضرت حسام الدین چلپی رحمۃ اللہ علیہ نے ۶۸۴ھ میں انتقال کیا، ان کے بعدسُلطان ولہ مسندِ خلافت پر متمکّن ہوئے۔مولانا کی تصانیف مولانا کی تصانیف میں مولانا کے ملفوظات میں ایک مجموعہ ہے جس کا