معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم (رومیؒ) اے محبوبِ حقیقی! آپ کی یاد میں نعرۂ مستانہ مجھے بہت اچھا معلوم ہوتاہے۔ اے اللہ! قیامت تک مجھے اپنی محبت میں نالہ و فریاد کی توفیق عطا فرماتے رہیے۔ فائدہ : اس حکایت میں حق تعالیٰ کی محبت اور آخرت کی نعمت کا دنیا و مافیھاکی تمام نعمتوں سے افضل واحسن واکبر ہونا بتلایاگیاہے اور دنیائے فانی سے بے رغبتی کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت مجذوبؔ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جاہے، تماشا نہیں ہے اور حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ؎ اے نفس اگر بدیدۂ تحقیق بنگری درویشی اختیار کنی بر تونگری اے نفس! اگر تو غور کرے تو عقلاًیہی فیصلہ کرنے پر مجبورہوگاکہ مالداری پر درویشی کواختیار کرلوں۔ نگاہِ تحقیق یہ ہے کہ ایک دن دنیا سے رخصت ہوناہے اور مرنے کے بعدفقیر اور بادشاہ قبر میں برابر ہوجاتے ہیں ؎ ہندی و قیچاتی و رومی و حبش جملہ یک رنگ اند اندر گور خوش ایں شراب و ایں کباب و ایں شکر خاکِ رنگین است جملہ اے پسر! ترجمہ: ہندی و قیچاتی، رومی اور حبشی قبرستان میں پہنچ کر ایک رنگ ہوجاتے ہیں یعنی