معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مولانا کی زندگی کا دوسرا دور مولانا کی زندگی میں خاص انقلاب حضرت شمس تبریزرحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات سے شروع ہوتاہے،شمس تبریز کیّا بزرگ(کیّابزرگ ایک شخص کانام ہے) کے خاندان سے تھے جو فرقۂ اسماعیلیہ کا امام تھا۔ لیکن انھوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کرکے علوم حاصل کیے اور بابا کمال الدین جندی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہوگئے، سوداگروں کی وضع میں شہروں کی سیاحت کرتے رہتے تھے، ایک مرتبہ دعامانگی کہ الٰہی! کوئی ایسا خاص بندہ ملتاجو میری صحبت کامتحمل ہوتا، بشارت ہوئی کہ روم جاؤ،اسی وقت چل کھڑے ہوئے اور قونیہ پہنچے، برنج فروشوں (چاول فروش) کی سرامیں اُترے، سرا کے دروازے پر ایک چبوترا تھا، اس پر اکثر عمائد آبیٹھتے تھے، وہیں مولانااورشمس تبریز کی ملاقات ہوئی اوراکثر صحبت رہنے لگی۔ مولانا کی حالت میں نمایاں تغیّرپیدا ہوااور مولانا کے سینے میں عشقِ حق کی آگ داخل ہوئی۔ سماع سے احتراز کرتے تھے،درس وتدریس ، وعظ وپند کے اشغال چھوڑدیے،حضرت شمس تبریز کی صحبت سے دم بھرکے لیے جدا نہیں ہوتے تھے، تمام شہر میں ایک شورش مچ گئی۔ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ فتنے کے خوف سے چپکے سے دمشق چل دیے۔ مولانا کو بے حد صدمہ ہوا، کچھ عرصہ بعد مولانا کی بے چینی دیکھ کرلوگ جاکر شمس تبریزرحمۃ اللہ علیہ کوواپس لائے لیکن تھوڑے دنوں رہ کرپھرشمس تبریزرحمۃ اللہ علیہ کہیں غائب ہوگئے اور باوجود تلاش کے ان کا پتا نہ چلا،بعض تذکرہ نویسوں نے لکھاہے کہ حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے شہید کرڈالا۔ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی غیبت کے بعدمولانا کو سخت بے چینی ہوئی،اسی اضطراب میں ایک دن صلاح الدین زرکوب رحمۃ اللہ علیہ کی دوکان کے پاس سے گزرے، وہ ورق کوٹ رہے تھے، مولانا پر خاص حالت طاری ہوگئی،صلاح الدین زرکوب رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ نہیں روکااور بہت سا ورق ضایع ہوگیا۔ بالآخر صلاح الدین نے کھڑے کھڑے دوکان لٹادی اور مولانا کے ہمراہ ہولیے اور نوسال تک مولانا کی صحبت میں رہے، مولانا کو بھی ان کی صحبت سے بہت تسلّی ہوئی۔ بالآخر ۶۶۴ھ میں صلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ نے انتقال فرمایا، ان کی وفات